إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
بے شک اللہ دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے، وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہی اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکائے جاتے ہو۔
35: بے جان سے جاندار کو نکالنے کی مثال یہ ہے کہ انڈے سے مرغی نکل آتی ہے اور جاندار سے بے جان کے نکلنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا 36: اس ترجمے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ بظاہر قرآن کریم میں ” لوگوں !“ کا لفظ نظر نہیں آرہا، لیکن در حقیقت یہ ذلکم میں جمع مخاطب کی ضمیر کا ترجمہ ہے۔ عربی کے قاعدے سے یہ جمع کی ضمیر مشار الیہ کی جمع نہیں ہوتی، بلکہ مخاطب کی جمع ہوتی ہے۔ دوسرے ” کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لیے جا رہا ہے“ اس ترجمے میں ” توفکون“ کے صیغہ مجہول کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ ان کی خواہشات ہیں جو انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔