وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔
اس آیت نے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ؛ بلکہ تمام جانوروں کو بھی قیامت کے بعد حشر کے دن زندہ کرکے اٹھایا جائے گا، تم جیسی ہے اصناف ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہیں دوسری زندگی دی جائے گی اسی طرح ان کو بھی دوسری زندگی ملے گی، ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ جانوروں نے دنیا میں ایک دوسرے پر جو ظلم کئے ہوں گے میدان حشر میں مظلوم جانور کو حق دیا جائے گا کہ وہ ظالم سے بدلہ لے، اس کے بعد چونکہ وہ حقوق اللہ کے مکلف نہیں ہیں اس لئے ان پر دوبارہ موت طاری کردی جائے گی، یہاں اس حقیقت کو بیان فرمانے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ کفار عرب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ سارے کے سارے انسان جو مر کر مٹی ہوچکے ہوں گے، ان کو دوبارہ کیسے جمع کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ صرف انسانوں ہی کو نہیں جانوروں کو بھی زندہ کیا جائے گا ؛ حالانکہ جانوروں کی تعداد انسانوں سے کہیں زیادہ ہے، رہا یہ معاملہ کہ دنیا کی ابتداء سے انتہا تک کے بے شمار انسانوں اور جانوروں کے گلے سڑے اجزاء کا کیسے پتہ لگایا جائے گا تو اس کا جواب اگلے جملے میں یہ دیا گیا ہے کہ لوح محفوظ میں ہر بات درج ہے اور یہ ایسا ریکارڈ ہے جس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے، لہذا نہ انسانوں کو جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل ہے نہ جانوروں کا۔