يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شکار کو مت قتل کرو، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو اور تم میں سے جو اسے جان بوجھ کر قتل کرے تو چوپاؤں میں سے اس کی مثل بدلہ ہے جو اس نے قتل کیا، جس کا فیصلہ تم میں سے دو انصاف والے کریں، بطور قربانی جو کعبہ میں پہنچنے والی ہے، یا کفارہ ہے مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا اس کے برابر روزے رکھنا، تاکہ وہ اپنے کام کا وبال چکھے۔ اللہ نے معاف کردیا جو گزر چکا اور جو دوبارہ کرے تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ سب پر غالب، بڑے انتقام والا ہے۔
66: اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کرنے کا گناہ کرلے تو اس کا کفارہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس جانور کا شکار کیا ہے اگر وہ جانور حلال ہو تو اسی علاقے کے دو تجربے کار دین دار آدمیوں سے اس جانور کی قیمت لگائی جائے، پھر چوپایوں یعنی گائے بیل بکری وغیرہ میں سے اس قیمت کے کسی جانور کی قربانی حرم میں کردی جائے یا اس کی قیمت فقراء میں تقسم کردی جائے، اور اگر کسی ایسے جانور کا شکار کیا تھا جو حلال نہیں ہے مثلاً بھیڑیا تو اس کی قیمت ایک بکری سے زیادہ نہیں سمجھی جائے گی، اور اگر کسی شخص کو مالی اعتبار سے قربانی دینے یا قیمت فقراء میں تقسیم کرنے کی گنجائش نہ ہو تو وہ روزے رکھے روزوں کا حساب اس طرح ہوگا کہ اس جانور کی جو قیمت بنی تھی اس میں سے پونے دو سیر گندم کی قیمت کے برابر ایک روزہ سمجھا جائے گا، آیت کی یہ تشریح : امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کے مطابق ہے، ان کے نزدیک اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کا مطلب یہ ہے کہ پہلے شکار کئے ہوئے جانور کی قیمت لگائی جائے، پھر اس قیمت کا کوئی چوپایہ حرم میں ذبح کیا جائے، تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔