سورة المآئدہ - آیت 82

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یقیناً تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گا جنھوں نے شریک بنائے ہیں اور یقیناً تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، ان میں سے دوستی میں سب سے قریب ان کو پائے گا جنھوں نے کہا بے شک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ بے شک ان میں علماء اور راہب ہیں اور اس لیے کہ بے شک وہ تکبر نہیں کرتے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

56:: مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں میں چونکہ بہت سے لوگ دنیا کی محبت سے خالی ہیں، اس لئے ان میں قبول حق کا مادہ زیادہ ہے اور کم از کم انہیں مسلمانوں سے اتنی سخت دشمنی نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی محبت وہ چیز ہے جو انسان کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے، اس کے برعکس یہودیوں اور مشرکین مکہ پر دنیا پرستی غالب ہے، اس لئے وہ سچے طالب حق کا طرز عمل اختیار نہیں کرپاتے، عیسائیوں کے نسبۃً نرم دل ہونے کی دوسری وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ؛ کیونکہ انسان کی انا بھی اکثر حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے محبت میں قریب تر فرمایا گیا ہے اسی کا اثر یہ تھا کہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بہت سے مسلمانوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پناہ لی، اور نہ صرف نجاشی بلکہ اس کی رعایا نے بھی ان کے ساتھ بڑے اعزاز واکرام کا معاملہ کیا ؛ بلکہ جب مشرکین مکہ نے اپنا ایک وفد نجاشی کے پاس بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ جن مسلمانوں نے اس کے ملک میں پناہ لی ہے انہیں اپنے ملک سے نکال کرواپس مکہ مکرمہ بھیج دے تاکہ مشرکین ان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناسکیں، تو نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے ان کا موقف سنا اور مشرکین مکہ کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا اور جو تحفے انہوں نے بھیجے تھے وہ واپس کردئے ؛ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے قریب تر کہا گیا ہے یہ ان عیسائیوں کی اکثریت کے اعتبار سے کہا گیا ہے جو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی محبت سے دور ہوں اور ان میں تکبر نہ پایا جاتا ہو ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر زمانے کے عیسائیوں کا یہی حال ہے ؛ چنانچہ تاریخ میں ایسی بہت مثالیں ہیں جن میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین معاملہ کیا۔