سورة المآئدہ - آیت 45

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے اس میں ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلہ ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

39: دوسرا واقعہ ان آیات کے پس منظر میں یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، ایک بنو قریظہ اور دوسرے بنو نضیر، بنو نضیرکے لوگ مال دار تھے، اور بنو قریظہ کے لوگ مالی اعتبار سے ان کے مقابلے میں کمزور تھے، اگرچہ دونوں یہودی تھے مگر بنو نضیر نے ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے یہ ظالمانہ اصول طے کرالیا تھا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کرے گا توقاتل سے جان کے بدلے جان کے اصول پر قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ خوں بہا کے طور پر ستر وسق کھجوریں دے گا (وسق ایک پیمانہ تھا جو تقریباً پانچ من سیر کا ہوتا تھا) اور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کرے گا تونہ صرف یہ کہ قاتل قصاص میں قتل کیا جائے گا بلکہ خوں بہا بھی لیا جائے گا اور وہ بھی دگنا، جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے توایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ قریظہ کے کسی شخص نے بنو نضیر کے ایک آدمی کو قتل کردیا، بنو نضیر نے جب اپنی سابق قرارداد کے مطابق قصاص اور خوں بہا دونوں کا مطالبہ کیا توقریظہ کے لوگوں نے اسے انصاف کے خلاف قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ فیصلہ آنحضرتﷺ سے کرایا جائے ؛ کیونکہ اتنا وہ بھی جانتے تھے کہ آپ کا دین انصاف کا دین ہے، جب قریظہ کے لوگوں نے زیادہ اصرار کیا توبنو نضیر نے کچھ منافقین کو مقرر کیا کہ وہ آنحضرتﷺ سے غیر رسمی طور پر آپ کا عندیہ معلوم کریں اور اگر آپ کا عندیہ بنو نضیر کے حق میں ہو تو فیصلہ ان سے کرائیں ورنہ ان سے فیصلہ نہ لیں، اس پس منظر میں یہ آیت بتارہی ہے کہ تورات نے تو واضح طور پر فیصلہ دیا ہوا ہے کہ جان کے بدلے جان لینی ہے اور اس لحاظ سے بنو نضیر کا مطالبہ سراسر ظالمانہ اور تورات کے خلاف ہے۔