سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت کھانے والے حرام کو، پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
36: یہاں حرام سے مراد وہ رشوت ہے جس کی خاطر یہودی پیشوا تورات کے احکام میں تبدیلیاں کردیتے تھے۔ 37: جو یہودی فیصلہ کرانے آئے تھے ان سے جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا مگر وہ باقاعدہ اسلامی حکومت کے شہری نہیں تھے، اس لئے آپ کو یہ اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو ان کا فیصلہ کردیں اور چاہیں توانکار فرمادیں، ورنہ جو غیر مسلم اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں ملک کے عام قوانین میں ان کا فیصلہ بھی اسلامی شریعت کے مطابق ہی کرنا ضرری ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے البتہ ان کے خاص مذہبی قوانین جو نکاح طلاق اور وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں ان میں انہی کے مذہب کے مطابق فیصلہ انہی کے ججوں کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔