أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
کیا تو نے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کس طرح کیا۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے تاریخی پس منظر کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل شدہ سورتوں سے ہے۔ سورۃ البروج میں گزرچکا ہے کہ یمن میں یہودی فرمانروا ذونواس نے عیسائیوں پر جوظلم وستم ڈھائے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کیا اور ٥٢٥ میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حملے کا باعث محض مذہبی انتقام نہ تھا بلکہ اس کے کچھ سیاسی اور مذہبی عوامل بھی تھے اس حملہ آور فوج کی قیادت دوامیروں کے ہاتھ میں تھی ایک اریاط اور دوسرا ابرہہ۔ بعد میں اریاط مارا گیا اور ابرہہ نے پوری قیادت پر قبضہ کرلیا۔ اور شاہ حبش کی رضامندی سے یمن میں گورنر مقرر ہوگیا۔ پھر رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا۔ اس کے بعد اس نے عرب میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک کلیسا تعمیر کروایا جو القلیس کے نام سے مشہور ہوا اور اس نے عربوں کو حج کعبہ سے اس طرف موڑنے کی کوششیں شروع کردیں اور یمن میں علی الاعلان اس کی منادی بھی کرادی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح عربوں کو غصہ دلائے اور مکہ پر حملہ کاجواز مل جائے۔ چنانچہ اس کے اعلان پر غضب ناک ہوکرایک عرب نے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کررفع حاجت کرڈالی۔ جس کی اطلاع پر ابرہہ طیش میں آگیا اور اس نے کعبہ پر حملہ کا منصوبہ بنالیا۔ اور ساٹھ ہزار، کی فوج کے ساتھ جس میں ٩ ہاتھی بھی شامل تھے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ لشکر جب طائف کے قریب پہنچاتوبنوثقیف نے ایک معاہدہ کے تحت اس کی رہنمائی کے لیے ایک شخص ابورعال نامی کو اس کے ساتھ کردیا، المغمس نامی جگہ پر پہنچ کرابورغال مرگیا، اور عرب مدتوں تک اس کی قبر پرسنگ باری کرتے رہے۔ یہ مقام مکہ سے قریبا تیس کوس کے فاصلے پر تھا اس سے آگے بڑھا تو محمود نامی ہاتھی نے مکہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور وہیں بیٹھ گیا اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ چونچوں میں سنگریز لیے آئے اور اس لشکر پرسنگ باری شروع کردی جس کسی پر یہ پتھر گرتے اس کا جسم گل جاتا۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں نے افراتفری میں یمن کی طرف بھاگنا شروع کردیا اور سارالشکر تباہ وبرباد ہوگا۔ یہ واقعہ وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا اور پھر ہوا کہ یمن کے اندر حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا اس سورۃ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔