فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا
پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری ( کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔
(٢) قرآن مجید نے بے شک انسان کو نیکی اور بدی کا الہای علم دیا گیا ہے مگر اس الہام کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ اس کے بعد ہدایت ووحی بھیج کر تفصیل سے برواثم کے تمام شعبے سمجھادیے ہیں۔ دنیا کانظام فطرت تین شعبوں سے مکمل ہوتا ہے۔ مادہ قوت، اور ان دونوں سے بالاتر ایک ذی شعور طاقت جوان دونوں میں ربط واتحاد پیدا کرتی ہے اور وہ فطرت صالحہ وسلیمہ ہے جو اصلا خود انسان کے اندر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے نظام عالم کی ان تین کڑیوں کا ذکر بالترتیب اس سورۃ میں کیا ہے۔ قرآن کریم نے آخرت کے وجود کا اذعان جن جن دلائل سے کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یامثنی ضرور رکھتی ہے پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے بھی کوئی متقابل ومثنی زندگی ہو، دنیوی زندگی کی متقابل زندگی، آخرت کی زندگی ہے، چنانچہ بعض سورتوں میں انہی متقابل مظاہر سے استشہاد کیا ہے مثلا اسی سورۃ میں فرمایا، والشمس وضحھا۔۔ تا۔۔ وما طحھا۔