وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا
اور ہم نے تمھاری نیند کو ( باعث) آرام بنایا۔
(٣)۔ آیت ٩ تا ١١ میں فطری لحاظ سے نیند کافلسفہ بیان کیا ہے اور پھر دن رات کے اختلاف میں جو فوائد پنہاں ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، زمانہ قدیم میں اس کی جستجو بیکار تھی کہ وہ خواب غفلت کا زمانہ تھا دورجدید کے بعض علمائے قدیم کا خیال تھا کہ نیند خون کی اس کثرت مقدار کا نتیجہ ہے جس کی رولیٹنے سے انسان کے دماغ میں دفعتۃ پہنچ جاتی ہے تجارت علمیہ اس خیال کی تائید نہیں کرتے، کیمسٹری کے اصول وقواعد نے نیند کی جوحقیقت بیان کی ہے یہ کہ انسان کا جسم درحقیقت ایک ٹرین کی طرح ہے جوہروقت چلتی رہتی ہے لیکن جب کوئلہ ختم ہوجاتا ہے اور اس جگہ انجن میں راکھ بھرجاتی ہے تو اسے مجبورا رک جانا پڑتا ہے یہی حال انسان کے دماغ کا ہے جب ایندھن ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ فضلات جمع ہوجاتے ہیں توانجن کی طرح وہ بھی دفعتۃ رک جاتا ہے اور اسی کو ہم خواب شیریں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اعصاب دماغیہ اپنے وظائف عملیہ میں ہمیشہ دواجزا کے محتاج ہوتے ہیں آکسیجن اور کروماتوفیل، اس لیے دماغ آکسیجن کا ایک معتدبہ ذخیرہ جمع کرتا رہتا ہے کروماتوفیل کی کافی مقدار ہمیشہ خلایائے عصبیہ میں جمع رہتی ہے اور نیند اس خزانے میں اور اضافہ کردیتی ہے جب انسان سرگرم عمل رہتا ہے تو صرفوہ اجزا فنا ہی نہیں ہوتے جو دماغ کے انجن کا کوئلہ ہیں بلکہ جس قدر فنا ہوتے ہیں اسی نسبت سے اس میں فضلات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ نیند کاسبب خون یافضلات رد یہ نہیں بلکہ وہ سیال مادہ ہے جو مبدائے اعصاب کے اطراف میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس مادے کی حقیقت کیا ہے ؟ فطرت نے یہ رازابھی تک اپنے خزانے میں محفوظ رکھا ہے خدا نے اور دیگر تمام فطری چیزوں کے ساتھ آج سے تیرہ سو برس پہلے اپنا ایک احسان یہ جتایا تھا اب تحقیق جدیدکامتحرک قدم بھی اس نقطے پر پہنچ کررک گیا ہے جہاں سے پرکار کی حرکت اولی شروع ہوئی تھی چنانچہ بعض علما کا خیال ہے کہ نیند بلکل فطری چیز ہے۔