أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
یا وہ لوگوں سے اس پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔
39: یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت جس کو مناسب سمجھتا ہے نبوت اور خلافت وحکومت کے اعزاز سے سرفراز فرماتا ہے ؛ چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت وحکمت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھا ؛ چنانچہ ان میں بعض (مثلاً حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام) نبی ہونے کے ساتھ حکمران بھی بنے، اب تک ان کے ایک صاحبزادے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت جاری رہی ہے، اب اگر ان کے دوسرے صاحب زادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے تو اس میں اعتراض یا حسد کی کیا بات ہے؟