سورة النسآء - آیت 24

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں، یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مقرر کرلینے کے بعد آپس میں راضی ہوجاؤ، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

20: جوکنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کرکے لائی جاتی تھیں اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جاتے تھے ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہوجاتا تھا، لہذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کرلیتیں اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا تو ان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا، مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں، آجکل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔ 21: مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں اور اس رشتے کو عفت وعصمت کے تحفظ اور بقائے نسل انسانی کا ذریعہ بناتے ہیں، صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کرلینا خواہ وہ پیسے خرچ کرکے ہی کیوں نہ ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔