سورة المجادلة - آیت 8

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں سر گوشی کرنے سے منع کیا گیا، پھر وہ اس چیز کی طرف لوٹتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا اور آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٣) منافقین نے مسلم معاشرے میں یہ طریقہ اختیار کررکھا تھا کہ بہ ظاہر وہ مسلمانوں میں شامل تھے مگر خفیہ طور پر مسلمانوں سے الگ ایک جتھا بنارکھا تھا اور آپس میں سرجوڑ کر کھسرپھسر کرنے لگتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے، طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں تیار کرتے۔ اور ان کایہ بھی رویہ تھا کہ جب نبی کی خدمت میں حاصر ہوتے تو، السلام علیکم، کے بجائے، السام علیک (نعوذ بااللہ) کہتے، یعنی تجھ پر ہلاکت ہو اور دل میں سمجھتے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہوتے تو ہماری ان حرکتوں کی بنا پر ہم عذاب نازل ہوجاتا اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، لہذا یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔