سورة الحديد - آیت 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل دی اور ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے اس کی پیروی کی نرمی اور مہربانی رکھ دی اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا) پھر انھوں نے اس کا خیال نہ رکھا جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق تھا، تو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٣) آیت ٢٧ سے دین میں رہبانیت کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ان پر فرض نہیں کی گئی تھی بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر فرض کرلی تھی، اور اس سے بزعم خود وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے مگر اسلام نے اس قسم کی رہبانیت اور عزلت نشینی کی نفی کی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لارھبانیۃ فی الاسلام، کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور میری امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے عیسائیوں نے اس سلسلہ میں دوہری غلطی کی، ایک یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور پھر ان پابندیوں کی صحیح طور پر رعایت بھی نہ کرسکے۔ حضرت عیسیٰ کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا مگر مسیحت میں ایسے تخیلات پائے جاتے تھے جن پر بعد میں رہبانیت کی اساس قائم ہوئی بلکہ دنیاوی کاروبار سے علیحدگی اور تجرد کی زندگی کو افضل سمجھا جاتا تھا مگر تیسری صدی میں اس تخیل نے ایک فتنے کی شکل اختیار کی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحت میں پھیل گئی، شہوانیت اور بدکاری کو روکنے کے لیے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو نجس قرار دیا گیا اور مذہب کی توسیع کے لیے بدعات کو فروغ دیا گیا اولیا پرستی، مسیح اور مریم کے مجسموں کی پوجا، تعویذ، گنڈے، جن بھوت نکالنے کا عمل، یہ سب باتیں عیسائی درویشوں میں مقبول ہوگئیں۔ پھر چونکہ تنہا انجیل کے اندر کوئی ضابطہ حیات نہ تھا اس لیے عیسائی علما نے مستعار فلسفوں کو اپنانا شروع کردیا اور بدھ مذہب کے بھکشوؤں اور جوگیوں، ایران کے مانویوں اور افلاطون کے پرواشراقیوں سے بہت سے طور وطرق اخذ کرلیے اس طرح قرآن مجید کے زمانہ نزول میں اس مذہب کے بڑے بڑے علما خود راہب اور رہبانیت کے علمبردار بن گئے تھے اور انہیں کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا۔ یہ رہبانیت کیا تھی؟ سخت ریاضتوں سے اپنے جسم کو تکالیف میں مبتلا رکھتے تھے اور خانقاہوں میں نفس کشی کے لیے مشقتیں کی جاتی تھیں اس سلسلہ میں ان کی ریاضتیں مشہور ہیں اور یہی راہب ان کے اولیاء اللہ کہلاتے تھے اسی بگاڑ کی طرف قرآن مجید نے مختصر الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔