مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
(٧) آخر سورۃ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی شان بیان فرمائی ہے اور اسلامی تحریک کے بتدریج تنومند ہونے کی خوش خبری دی ہے چنانچہ شروع اسلام میں مسلمانوں کی حیثیت، کھیتی کی اس کونپل سے زیادہ نہ تھی جوہوا کے جھونکوں سے ادھر ادھر گرتی رہتی ہے مگر یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی اور آخرکار ان کے اجتماعی وسیاسی نظام کی بنیادیں مستحکم ہوگئیں اور کفار اپنے حسد کی آگ میں جل بھن کررہ گئے۔ آیت کریمہ میں صحابہ کے جواوصاف بیان ہوئے ہیں ان میں اخلاقی بلندی اور عبادت گزاری کے وصف پر زور دیا ہے کہ وہ ہر وقت رکوع وسجود میں لگے رہتے ہیں اور کثرت وسجود سے ان کے چہرے دمک رہے ہیں۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام میں داخل ہوئیں تو وہاں کے عیسائی انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمیں مسیح کے حواریوں کی جوشان معلوم ہے ان کی شان اسے بھی کہیں زیادہ ہے۔