وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔
آیت ٤ میں اشارہ ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کی بہ نسبت زیادہ ہے اس لیے کہ وہ اولاد کے لیے مسلسل تکلیف میں مبتلا رہتی ہے اور بچے کی تربیت کا تعلق بھی ماں سے ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں شفقت ومحبت بھی زیادہ رکھی ہے۔ ربوبیت الٰہی کی کارسازی پر غور کرو، کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات سے زیادہ پرجوش اور ناقابل تسخیر بنادیا گیا ہے (پھرجب) بچے کا عہد رضاعت پورا ہوجاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے ماں کا دودھ خشک ہوناشروع ہوجاتا ہے یہ گویاربوبیت الٰہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی۔