سورة الأحقاف - آیت 14
أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
یہ لوگ جنت والے ہیں، ہمیشہ اس میں رہنے والے، اس کے بدلے کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔
تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد
(٣) نجات کے لیے ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقرار کے بعد استقامت بھی شرط ہے : ” ہمیشہ دو ہی خیال دماغوں میں پیدا ہوئے بعض نے سمجھا کہ کچھ نہیں کرسکیں گے اور بعض نے خیال کیا کہ چاہیں گے تو سب کچھ کرلیں گے۔ پہلے خیال کا نتیجہ یہی نکلا کہ کچھ نہ ہوا دوسرے نے چٹیل میدانوں کو ایوان ومحل، ویران جنگلوں کو آباد شاداب، غلاموں کو آزاد ایک گڈریے کو صاحب تاج وتخت اور ایک مردہ قوم کو زندہ قائم کردیا، البتہ استقامت شرط راہ اور دلیل وصول بارگاہ ہے“۔