ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے۔
(٩) یہاں، القربی، کے معنی قرابت رشتہ داری کے ہیں پیغمبروں نے اپنی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ پیش کی ہے کہ میرا یہ دعوتی کام کسی طمع یالالچ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خالصتا اللہ کے لیے ہے یہاں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی میں تم سے اس کام پر کسی قسم کے اجر کا طالب نہیں ہوں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ تم کم ازکم اس رشتہ داری کا پاس کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے کہ اگر میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ظلم وستم نہ کرو اور مجھے اللہ کا پیغام سنانے کے لیے آزاد چھوڑ دو آیت کے یہ معنی صحیین اور حدیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس سے منقول ہیں اور یہی راجع ہیں۔ بعض نے القربی کے معنی طاعت کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب مراد لیا ہے کہ میں تم سے اس کے سواکچھ نہیں چاہتا کہ تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو بس ہی میرا اجر ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا، قل ما اسئلکم علیہ من اجر الامن شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا (الفرقان ٥٧)۔ بعض علماء نے، المودۃ فی القربی، سے رشتہ داروں سے محبت کیے ہیں اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ماسواس کے کہ میرے اہل بیت یعنی حضرت فاطمہ اور ان کی اولاد سے محبت کرو۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض تابعین سے منقول ہے مگر آیت کی یہ تفسیر کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے خصوصا جب یہ آیت مکی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت تک حضرت علی اور حضرت فاطمہ کا نکاح نہی نہیں ہوا تھا کجایہ کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی۔ اور پھر رسول اللہ جس بلند مقام پر کھڑے ہو کر دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے اس مقام پر سے یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو نبی کی شان سے گری ہوئی بات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں جس قدر انبیاء کے قصے مذکور ہیں سب نے، ان اجری الاعلی اللہ کانعرہ لگایا ہے اور کسی نے بھی اپنے مخالفین سے ایسی عرض وگزارش نہیں کی پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بلندی شان کے ساتھ یہ بات کیونکر کہہ سکتے ہیں۔