شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے، اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔
(٧(آیت ١٣ میں پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا نام لے کربتادیا کہ سب کو ایک ہی دین دے کر بھیجا گیا تھا یہ دین محض چند اصول وعقائد ہی کا نام نہیں بلکہ اس میں شرائع کے بنیادی احکام بھی داخل ہیں جیسا کہ سورۃ البینہ میں فرمایا، وما امروالالیعبدواللہ مخلصین لہ الدین ویقیموا الصلوۃ یوتوالزکوۃ واذالک دین القیمہ۔ یعنی انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے یکسوہوکر اس کی عبادت کریں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اسی طرح محرمات شرعیہ کو تکمیل دین قرار دیا ہے (المائدہ ٣) اور پھر آیت ٢٩ سورۃ التوبہ میں اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال وحرام کے احکام کو ماننا بھی دین میں داخل ہے اور سورۃ النور میں حدود الٰہیہ کے قیام کودین قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجداری احکام بھی دین میں داخل ہیں۔ الغرض یہ الدین، کا اجمالی خاکہ ہے جس کی طرف دعوت دینے اور اسے قائم کرنے کے لیے پیغمبر بھیجے گئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی دین کی طرف دعوت دینے کے لیے مبعوث ہوئے یہ دعوت، مشرکین پر گراں گزرتی، اس بنا پر کبھی تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اعتراض کرتے اور کبھی مصالحت کا اظہار کرکے کچھ نرمی اختیار کرنے کو کہتے مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استقامت کے ساتھ ان مخالفانہ حربوں کو برداشت کرتے رہے اور دین کے معاملہ میں کسی قسم کی رواداری اور مداہنت سے کام نہ لیا۔