أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت زمین میں چلایا، پھر وہ اس کے ساتھ کھیتی نکالتا ہے، جس کے رنگ مختلف ہیں، پھر وہ پک کر تیار ہوجاتی ہے، پھر تو اسے دیکھتا ہے پیلی ہونے والی، پھر وہ اسے چورا بنا دیتا ہے، بے شک اس میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً بڑی نصیحت ہے۔
(٩) آیت ٢١ میں ایک قانون قدرت کی طرف اشارہ کیا ہے جو سب میں یکساں جاری وساری ہے یعنی بارش سے کھیتی کا اگنا اور مختلف مدارج طے کرنے کے بعد اس کا فنا ہوجانا اس کو عقل مندوں کے لیے نصیحت فرمایا کیونکہ خود انسان کی بھی یہی حالت ہے پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہوکربوڑھاہو جاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ اور یہی حال دنیا کا ہے اس کی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخرکار اس کی ہر چیز کو فنا ہے اس کے ہر کمال کو انحطاط ہے اور ہر عروج کا زوال ہے۔ ” نظام ربوبیت کی یکسانی اور ہم آہنگی ہر وجود اور گوشے میں نظر آتی ہے انسان کا بچہ درخت کاپودا تمہاری نظر میں کتنی ہے بے جوڑ چیزیں ہیں لیکن اگر ان کی نشوونما کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانی نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کردیا ہے یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تواز سرنوضعف وانحطاط کا دورشروع ہوجاتا ہے پھر اس دور کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح کا ہے کسی دائرے میں اسے مرجانا کہتے ہو کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا۔