وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کر، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک شیطان نے مجھے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔
(٦) عہد عتیق میں ایوب کے نام سے ایک صحیفہ ہے اور اس میں اس نام کے ایک راست باز اور صابر انسان کی سرگزشت لکھی ہے آیت ٤١ میں اس کی طرف اشارہ ہے اور چند الفاظ میں سارے صحیفہ کے مضمون کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ نے ترجمان القرآن، جلد دوم کے آخر میں ان کی سرگزشت پر بہت کچھ لکھا ہے اور ان کو عربی نژاد قرار دیا ہے اور پھر عربی زبان کی قدامت پر تاریخی شہادتیں پیش کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عربی زبان ویدوں کی زبان سے قدیم تر ہے زیادہ سے زیادہ ہم رگ وید کی تدوین کو عربی کا معاصر قرار دے سکتے ہیں اور قرآن مجید کا اپنے آپ کو عربی مبین کہنا وسیع ترمعنی کے اعتبار سے ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ صاحب تفہیم القرآن سورۃ انبیا کے توضیحی نوٹ ٧٦ میں پہلے تو مولانا آزاد کے بضد سفر ایوب کو ناقابل اعتمار قرار دیتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حرزقیل نبی کے صحیفوں میں انکاذکر آیا ہے اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے مستند ہیں اور یہ دونوں بالترتیب آٹھویں صدی اور چھٹی صدی قبل مسیح میں گزرے ہیں اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ ایوب (علیہ السلام) نویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں اب رہی قومیت، تو سورۃ نساء اور سورۃ انعام میں جس طرح انکاذکر آیا ہے اس سے گمان ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے مگر وہب بن منبہ کایہ بیان بھی کچھ بعیداز قیاس نہیں کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسیٰ کی نسل سے تھے۔ واللہ اعلم۔ حضرت ایوب کے اس قصے کو قرآن مجید نے اس انداز سے بیان فرمایا ہے گویا حضرت ایوب (علیہ السلام) صبر کا مجسمہ تھے مگر بائبل میں انہیں شاکی اور بے صبر انسان کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔