وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو، تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(٧) مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کررہے تھے ان سے ان کے مشرک رشتہ دار کہتے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو اختیار نہ کرو اور آبائی دین پر قائم رہو تمہارا عذاب تو اب ہماری گردن پر۔ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور کسی دوسرے پر بوجھ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب قیامت آئے گی تو ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے کوئی کسی کاذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔