سورة سبأ - آیت 19

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے، اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانیاں بنا دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بلا شبہ اس میں ہر بہت صبر کرنے والے، بہت شکر کرنے والے کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٧)۔ سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے قبائل پر مشتمل تھی اور قدیم زمانہ سے دنیا میں اس کاشہرہ تھا بائبل میں کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے یہ قوم یمن کے علاقہ میں سکونت پذیر تھی اور ١١٠٠ ق م سے اس کے عروج کے دور شروع ہوتا ہے آغاز میں یہ ایک کتاب پرست قوم تھی جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئی تو ممکن ہے کچھ دوسرے لوگ بھی توحید پرست بن گئے ہوں مگر اکثریت مشرک ہی چلی آرہی تھی اور وہ بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے مورخین کے مطابق ٦٥٠ ق م سے پہلے اس کے بہت سے بادشاہ ہوئے ہیں جن کالقب مکرب سبا ہوتا تھا غالبا اسی زمانہ میں سدمآرب کی بنیاد رکھی گئی اور یکے بعد دیگرے ہونے والے بادشاہ اسے وسعت دیتے رہے۔ پھر ٦٥٠ قم کے بعد ان کا پایہ تخت مآرب بنا جوکہ سمندر سے ٣٩٠٠ فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور صنعا یمن سے ٦٠ میل جانب مشرق میں واقع ہے پھر اس کے بعد ١١٥ ق م سے ٣٠٠ ء تک کے دور ہم تیسرا اس قوم کا دور کہہ سکتے ہیں اس دور میں قبیلہ حمیر برسراقتدار تھ اجوقوم سبا کا ایک قبیلہ تھا انہوں نے مآرب کوچھوڑ کر، ریدان، کو پایہ تخت بنالیا جو بعد میں ظفار کے نام سے مشہور ہوا اور اسی دور میں اس قوم کا زوال شروع ہوتا ہے۔ ٣٠٠ ء کے بعد آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی ہلاکت اور تباہی کا دور ہے اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں تجارت برباد ہوگئی زراعت نے دم توڑ دیا اور آخرکار آزادی تک کا خاتمہ ہوگیا پہلے حبشیوں نے قبضہ کیا ان سے آزادی حاصل ہوئی تو سدمآرب میں رخنے پڑنے شروع ہوگئے حتی کہ ٤٥٠، میں بندٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جسے قرآن مجید نے سیل العرم کے نام سے ذکر کیا ہے اگرچہ اس کے بعد ابرہہ کے زمانہ تک اس بند کی مرمتیں ہوتی رہیں مگر آبپاشی کانظام بحال نہ ہوسکا۔ ٥٢٣ ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے اس نجران عیسائیوں پر ظلم وستم ڈھائے جسے قرآن مجید نے، اصحاب الاخدود، کے نام سے ذکر کیا ہے اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن کو فتح کرلیا اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابراہہ نے عرب کے پوری مغربی علاوہ کو رومی حبشی اثر لانے کے لیے ٥٧١ ء میں مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی فوج (اصحاب الفیل) پر تباہی آئی، بالآخر ٥٧٥ میں یمن پر ایرانیوں نے قبضہ کرلیا اور وہ قبضہ ٦٢٨ میں ختم ہوا جب کہ ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کرلیا۔۔