ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے دوست ہیں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمھارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(٢) حضرت زید بن حارثہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متبنی بنایا تھا اور اسوقت کے جاہلی رواج کے مطابق لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کرپکارتے تھے اللہ نے اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو تاکہ نسب میں اختلاط نہ ہو۔ چنانچہ اس کے بعد لوگ ان کو زید بن حارثہ کہہ کرپکارنے لگے جیسا کہ ترمذی اور نسائی اور صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک روایت منقول ہے، آیت نمبر ٥ میں اسی کا حکم بیان ہے۔