وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس تو اس کی ملاقات سے شک میں نہ ہو اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔
(٦) آیت ٢٣ میں منکرین رسالت کو مخاطب کیا ہے جو قرآن کے وحی ہونے کا انکار رہے تھے اور کہہ رہے تھے یہ قرآن اس (پیغمبر) نے خود گھڑ لیا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کو بطور شاہد پیش کیا جس کے کفار مکہ معترف تھے بلکہ کہا کرتے تھے، لولا اوتی مثل ما اوتی موسی۔ حضرت موسیٰ کو جو کتاب دی گئی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہدایت تھی اور اس پر عمل کرنے اور صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پیشوائی مل گئی، پھر جب انہوں نے باہم اختلاف اور فرقہ بندی کرکے تورات کے احکام سے روگردانی کی تو وہ ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہوگئے اور ذلت ونکبت میں گرفتار ہوگئے۔