تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ
یہ کمال حکمت والی کتاب کی آیات ہیں۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ العنکبوت اور یہ دونوں سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ اس سورۃ میں شرک کی تردید اور توحید کی طرف دلائل کے ساتھ دعوت دی گئی اور آثار کائنات سے اس پر استدلال کیا گیا ہے حضرت لقمان کے قصہ سے شہادت پیش کی گئی ہے کہ وہ بھی توحید کے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنے پند ونصائح میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے یہ قصہ غالبا اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ کفار قریش میں سے بعض لوگ حضرت لقمان کی پند وحکمت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں پیش کرتے اور کہتے کہ اس قسم کی باتیں تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ سورۃ کی ابتدا میں ہی قرآن مجید کے کتاب حکمت اور ہدایت و رحمت ہونے پر زور دیا ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاسکتے ہیں جوحسن کردار کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے بالمقابل وہ لوگ بھی ہیں جو، لہو الحدیث، کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں اور یہ لفظ اپنے وسیع ترمفہوم کے اعتبار سے گانا بجانا افسانے، ناول اور ہرقسم کی فحاشی کوشامل ہے، ایک روایت میں ہے کہ نضربن حارث عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم واسفند یار کی داستانیں لاکرقصہ گوئی کی محفلیں لگا کر قرآن کا مقابلہ کرنے لگا۔ ” قرآن کریم میں ہر جگہ اسلام کے ساتھ منکرین اسلام کے لیے، ولی، اور اعراض، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ولی عن الشئی، کے معنی اعراض کے ہیں، تولی عنہ ای اعراض عنہ، ہر جگہ پاؤ گے یعنی کسی چیز کی طرف سے منہ موڑلینا اور گردن پھیر لینا۔