وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر اچانک تم بشر ہو، جو پھیل رہے ہو۔
(٦) آیت ٢٠ سے آخر رکوع تک جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تو حیات اخروی کے امکان وقوع پر دلالت کرتی ہیں اور دوسری طرف اللہ کے خالق ومالک اور مدبر کائنات ہونے پر اس لیے یہ رکوع اپنے ماقبل اور مابعد دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔ ” قانون فطرت نے انسان کو دومختلف جنسوں (مردوعورت) میں تقسیم کردیا ہے پھر ان میں فعل وانفعال اور جذب وانجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کردیے کہ ہرجنس دوسری جنس سے ملنے کی قدرتی طلب رکھتی ہے تاکہ محبت اور سکون ہو، اور دوہستیوں کی باہمی رفاقت واشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل وگوار ہوجائیں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں پیدا کیں جن کے بغیر انسان مطمئن اور خوشحال زندگی بسر نہیں کرسکتے (١) سکون (٢) مودت (٣) رحمت۔ سکون عربی میں ٹھہراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبعیت میں ایسا ٹھہراؤ اور جماؤ پیدا ہوجائے جسے زندگی کی بے چینیاں اور پریشانیاں ہلانہ سکیں، مودت سے مقصود محبت ہے قرآن مجید کے نزدیک ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے لیکن یہ محبت کارشتہ پائیدار نہیں ہوسکتا اگر رحمت کا سورج دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ایک دوسرے کی خطائیں اور کمزوریاں نظر انداز کردیں رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کوفیاضانہ محبت میں بدل دیتا ہے خودغرضی میں انسان اپنی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت میں اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے کی غلطیاں بخش دے غضب وانتقام کی پرچھائیں دل پر نہ پڑنے دے۔