وَلَمَّا أَن جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
اور جیسے ہی ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوا اور ان کے سبب دل میں تنگ ہوا اور انھوں نے کہا نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم تجھے اور تیرے گھر والوں کو بچانے والے ہیں مگر تیری بیوی، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
(١١) اللہ تعالیٰ نے ان کے عذاب کے لیے فرشتے بھیجے وہ پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم کو اسحاق (علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری دی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ ہمیں تو قوم لوط کو تباہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے، آیت ٣١ میں اس بستی سے قوم لوط کے علاقے مراد ہیں جہاں پر اب بحیرہ مردار کے نشیبی علاقہ میں پانی پھیلا ہوا ہے جرون (بلدہ خلیل) کی پہاڑیوں سے وہ علاقہ چونکہ صاف نظرآتا ہے اس لیے فرشتوں نے اشارہ کرکے کہا کہ، اس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ ان دونوں میں بظاہر کوئی علاقہ نہیں مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلی خبر میں ایمان اور انیک عملی کی کامرانیوں کا اعلان ہے اور دوسری میں انکار وبدعملی کی ہلاکتوں کا، یعنی ہلاکت کی خبر کے ساتھ یہ بشارت دی گئی کہ نیک عملی کے نتائج میں ایک نئی نسل تیار کررہے ہیں اور وہ عنقریب اس تمام ملک پر حکمرانی کرنے والی ہے۔ ایک طرف یہ بتایا کہ جوزمین علاقہ بھر میں زیادہ سرسبز وشاداب نظر آتی ہے وہ بدعملیوں کی پاداش میں ایسی اجڑے گی کہ کبھی آباد نہ ہوسکے گی، اور جوشجر امید بالکل سوکھ چکا ہے وہ اچانک اس طرح سرسبز وشاداب ہوجائے کہ اس کی شاخیں صدیوں تک بارآور رہیں گی۔