وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ہزار برس رہا، پھر انھیں طوفان نے پکڑ لیا، اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔
(٥) ابتدائے سورۃ سے ان قصوں کی مناسب ظاہر ہے، یعنی اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالاجائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو ڈالا گیا اور کفار اللہ کی گرفت سے بچ کر نہیں نکل سکتے، انہی دوچیزوں پر استدلال کے لیے امم سابقہ کا تذکرہ شروع ہوگیا ہے جو درحقیقت دلائل وحجج کا ایک پورا سلسلہ ہے اس سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت ہے۔ (٦)۔ یعنی نبوت پرسرفراز ہونے کے بعد طوفان تک پورے ساڑھے نوسوبرس، حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کی اصلاح کے لیے، سعی فرماتے رہے اور ان کی زیادتیاں برداشت کرتے رہے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، اہل ایمان کو بھی چاہیے ان کے سے صبر واستقلال سے کام لیں اور ان پر جوظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں اس سلسلہ میں حضرت نوح کے دور کو سامنے رکھیں، چنانچہ سورۃ ہود میں اس قصہ کے خاتمہ پر فرمایا، فاصبر ان العاقبۃ للمتقین۔