فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلا تو اس نے پہاڑ کی طرف سے ایک آگ دیکھی، اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بے شک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمھارے لیے اس سے کوئی خبر لے آؤں، یا آگ کا کوئی انگارا، تاکہ تم تاپ لو۔
(٦) الغرض مدت پوری ہونے کے بعد جب حضرت موسیٰ اپنے اہل وعیال کے ساتھ واپس مصر جارہے تھے تو طور کی جانب میں انہوں نے آگ دیکھی تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی تو متعجب ہو کر قریب گئے لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع تعجب کے لیے نہیں بلکہ وہ پہلے آگ کی جستجو میں تھے تاکہ الاؤ جلا کر تاپ سکیں چنانچہ وہاں پہنچنے پر یہ واقعہ پیش آیا، یہاں پر، انی انااللہ رب العالمین، اور سورۃ نمل میں، انی انااللہ العزیز الحکیم، ہے، اس کے بعد ان کو دومعجزے دکھائے گئے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوجائے کہ وہ فی الواقع رب العالمین سے ہی مخاطب ہیں اور پھر فرعون کے پاس نہایت دل جمعی سے جائیں۔ آیت ٣٢ میں، واضمم الیک جناحک من الرھب۔ دراصل، اسلک یدک فی جیبک، کا بیان ہی ہے جیساکہ سورۃ طہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے۔