وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور وہ شہر میں اس کے رہنے والوں کی کسی قدر غفلت کے وقت داخل ہوا تو اس میں دو آدمیوں کو پایا کہ لڑ رہے ہیں، یہ اس کی قوم سے ہے اور یہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔ تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔ کہا یہ شیطان کے کام سے ہے، یقیناً وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔
(٣) (بنی اسرائیل کے خلاف مصڑیوں کا) یہ ظالمانہ طرز عمل صرف فرعون کے قصر شاہی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کانظارہ ہر گلی گوچے میں دیکھا جاسکتا تھا حاکم قوم اپنی قومی حکومت کے گھمنڈ میں بنی اسرائیل کے ہر فرد کو اپنا زرخرید غلام سمجھتی تھی ظلم کی ہمہ گیری کے ثبوت میں صرف یہی کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت موسیٰ کو ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ بازار میں ظلم کے واقعات نظر آئے۔