وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
اور بے شک تیرا رب یقیناً لوگوں پر بڑے فضل والا ہے اور لیکن ان کے اکثر شکر نہیں کرتے۔
(١٣) جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹی رہتی ہے جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھی جاتی ہے جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کردیتی ہے ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جاری ہے جو عمل حق ہوگا قائم اور ثابت رہے گا جو باطل ہوگا وہ مٹ جائے گا قرآن مجید نے اسے قضابالحق سے تعبیر کیا ہے، یعنی فطرت کا فیصلہ حق۔ کیا قضا بالحق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر باطل عمل فورانابود ہوجائے قرآن کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، اور رحمت کا مقتضا یہ ہے کہ ایسانہ ہو مادیات کی طرح معنویات میں بھی تدریج ومہال کا قانون کام کرتا ہے قرآن مجید میں جابجا ایسی مثالیں موجود ہیں کہ منکروں نے پیغمبروں سے کہا عذاب جلد لے آؤ، جن نتائج وعوقب سے ڈرا رہے ہو وہ کیوں ظاہر ہوجاتے ؟ قرآن کہتا ہے اگر کائنات ہستی میں اس حقیقت اعلی کا ظہور نہ ہوتا جسے رحمت کہتے ہیں تو یقینا یہ نتائج یکایک ظاہر ہوجاتے، قانون رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی ومعیشت کی مہلتیں دے اور توہ، رجوع، اور عفو ودرگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے فطرت کائنات میں اگر یہ رحمت نہ ہوتی تو یقینا وہ جزائے عمل میں جلد باز ہوتی، لیکن اسمیں رحمت ہے اس لیے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے اور نہ اس کے عفو درگزرکے لیے کوئی کنارہ۔