وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو اچانک وہ دو گروہ ہو کر جھگڑ رہے تھے۔
(٦۔ قوم ثمود میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا ظہور۔ (الف) جونہی حضرت صالح نے دعوت کا آغاز کیا قوم دوگروہوں میں بٹ گئی یعنی ایک مومن اور دوسرا منکر اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان میں کشمکش شروع ہوگئی ایک طرف قوم کے سردار تھے اور دوسری طرف حضرت صالح کے ساتھ غریب اور پسا ہوا طبقہ تھا یہی حالت مکہ میں مسلمانوں اور کفار قریش کی تھی اس لیے یہ قصہ ان حالات کے عین مطابق تھا۔ (ب) متکبر لوگ ہمیشہ خٰر کے بجائے شر مانگتے ہیں چنانچہ قوم ثمود کے سرداروں نے بھی عذاب کی درخواست کی اور حضرت صالح کو منحوس اور شرپسند کا خطاب کیا۔ (ج) قوم ثمود کے نوسرداروں نے ایکا کرلیا کہ انہیں رات کی تاریکی میں قتل کردیا جائے اور پھر ولی الدم کے سامنے انکار کردیا جائے کچھ ایسی ہی سازش کے بارے میں کفار مکہ نبی کے متعلق سوچ رہے تھے۔