إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا بلاشبہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں عنقریب تمھارے پاس اس سے کوئی خبر لاؤں گا، یا تمھارے پاس اس سے سلگایا ہوا انگارا لے کر آؤں گا، تاکہ تم تاپ لو۔
(٢) حضرت موسیٰ کی شروع زندگی کا وہ واقعہ بیان کیا ہے جب وہ مدین کی بستی میں مقیم تھے جب وہ مدین سے رخصت ہو کر اپنے اہل وعیال سمیت وادی سینا کے جبوی حصہ میں پہنچے تو وہیں یہ معاملہ پیش آیا تورات میں اس جگہ کو، حورب، کہا گیا ہے اور یہ کوہ طور کے دامن میں واقع ہے یہاں پر ایک کنیسہ تعمیر ہے جو کہتے ہیں کہ رومی سلطنت کے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے تعمیر کروایا تھا جو آج تک محفوظ ہے تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی اور متعجب ہوکروہاں گئے اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ محض رفع تعجب کے لیے نہیں گئے بلکہ آگ کی جستجو میں تھے، رات ٹھنڈی تھی اور سوچ رہے تھے کہ کہیں آگ مل جائے تو تاپنے کے لیے الاؤ جلائیں، اتنے میں دور سے ایک روشنی نظر آئی یہ سمجھ کہ وہ آگ ہے لیکن جب قریب پہنچے تو کارفرمائے قدرت نے پکارا، تو آگ کی چنگاری لے کر کیا کرے گا، یہ تو نور ہدایت کی آگ ہے اس سے روشنی حاصل کر۔ (الف) آیت نمبر ٨ کے الفاظ، بورک من فی النار، سے ذات باری تعالیٰ کے لیے تحدید اور مکانیت کا وہم ہورہا تھا اسلیے سبحان اللہ کلمہ تنزیہہ فرماکر اس کا ازالہ فرمادیا۔ (ب) آیت ١٠ میں عصا کو، کانھاجان، سے تعبیر فرمایا ہے جب کہ اعراف اور شعراء میں اس کے لیے ثعبان (اژدہا) کا لفظ استعمال کیا ہے امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جسامت میں تو وہ اژدھا تھا مگر سرعت حرکت کی وجہ سے اسے جان سے تعبیر فرمایا ہے اور سورۃ طہ میں، حیۃ تسعی، کے الفاظ ہیں، اور حضرت موسیٰ کا اژدھا سے ڈر کربھاگنا طبعی گھبراہٹ کی بنا پر تھا جیسا کہ ابتدا میں حضرت جبرائیل کو دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کپکی کی حالت طاری ہوگئی تھی۔ (ج) لاٹھی کے سانپ بننے اور ہتھیلی کے چمک اٹھنے کا ذکر تورات میں بھی ہے (خروج ٤) نیز یہ کہ خدا نے فرمایا، اب تو جا، میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں (خروج ٣۔ ١) سورۃ بنی اسرائیل میں، تسع آیات بینات، ہے یعنی ہم نے موسیٰ کو تو آشکارا نشانیاں دیں اور سورۃ الاعراف میں ان کی تفصیل مذکور ہے۔ (د) آیت ١٤ میں اصل مقصڈ کا اظہار فرمایا کہ جو لوگ آخرت پریقین نہیں رکھتے اور مادہ پرستیوں میں اندھے ہوجاتے ہیں وہ ایک دو کیا، نو کھلے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور اس کا انکار کا اصل سبب ان کا ظلم وعلو ہے ورنہ ان کے دلوں کو پیغمبرکی حقانیت کا یقین ہوتا ہے۔