كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ
نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔
(٦) پچھلی امتوں میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت نمایاں ہوتی ہے جن کا ظہور دریائے دجلہ وفرات کے دوآبہ میں ہوا تھا جو انسانی تمدن کاسب سے عظیم گہوارہ ہے اور جہاں غالبا سب سے پہلے بت پرستی کا ظہور ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی جمعیت اپنی ابتدائی اور فطرت ہدایت کی راہ سے سب سے پہلے گمراہ ہوئی۔ (الف) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کا ڈر سنایا اور کہا دیکھو میں ایک امانت دار رسول ہیں اس لیے میری اطاعت بجالاؤ اور پھر اس میں مجھے کسی قسم کالالچ یا طمع نہیں ہے۔ (ب) ایک شخص کا امانت دار یامخلص ہونا اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہوسکتی ہے مگر قوم نے پائے حقارت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور من جملہ دوسری باتوں کے منکرین نے یہ بھی کہا جو ہم میں کمینے ہیں انہی لوگوں نے تمہاری پیروی اختیار کی ہے پھر ہم ان میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا میرا کام تو بس صاف طور پر ڈرانا ہے میں ان مومنوں کو جن کو تم رذیل سمجھ رہے ہو اپنے سے دور نہیں کرسکتا۔ (ج) اس پر قوم کے سردارمخالف ہوگئے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ اگر تو ان دلائل ومواعظ سے باز نہ آیا تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ (د) آخر کار جب نوح (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ سے جتلایا گیا کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے اور یہ کہ ملک طوفان سے غرق ہونے والا ہے تو حضرت نوح نے فیصلہ کے لیے دعا کی اور اپنے ساتھیوں کے لیے راہ نجات طلب کی تو حکم ہوا کہ ایک کشتی بنالو، سورۃ ہود میں ہے کہ منکرین نے اس پر تمسخر اڑایا۔ (ہ) حسب وعدہ طوفان ظاہر ہوا حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں سمیت کشتی میں سوار ہوگئے اور ظالموں کو ان کی بداعمالیوں کی پاداش میں ہلاک کردیا گیا قرآن اس کو بہت عبرت کی نشانی قرار دیتا ہے حضرت نوح کا قصہ سورۃ الاعراف اور ہود میں گزرچکا ہے (ترجمان القرآن جلد دوم میں ملاحظہ کرلیاجائے)۔