سورة الفاتحة - آیت 3

الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ) ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کردیا جو قرٓن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے۔ لیکن یہ مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرایہ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وجود انسانی کرہ ارضی کے سلسلہ خلقت کی آخری اور اعلی ترین کڑی ہے اور اگر پیدائش حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک ناقابل شمار مدت کے مسلسل نشو وارتقا کی تاریخ ہوگی۔ گویا فطرت نے لکھوں کروڑوں برس کی کارفرمائی و صناعی سے کرہ ارضی پر جو اعلی ترین وجود تیار کیا ہے وہ انسان ہے ! ماضی کے ایک نقطہ بعید کا تصور کرو۔ جب ہمارا یہ کرہ سورج کے منتہب کرے سے الگ ہوا تھا۔ نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشوونما پا سکیں۔ اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشوونما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی اور پھر نہیں معلوم کتنی مدت کے بعد زندگی کا وہ اولین بیج وجود میں آسکا جسے پروٹو پلازم کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر حیات عضوی کے نشوونما کا دور شروع ہوا اور نہیں معلوم کتنی مدت اسی پر گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنی سے اعلی درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں۔ یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں اور پھر لاکھوں برس اس پر نکل گئے کہ یہ سلسلہ ارتقا وجود انسانی تک مرتفع ہو۔ پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طول طویل مدت اس پر گزر گئی۔ بالآخر ہزاروں برس کے اجتماعی اور ذہنی ارتقا کے بعد وہ انسان ظہور پذیر ہوسکا جو کرہ ارضی کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے۔ گویا زمین کی پیدائش سے لے کر تریق یافتہ انسان کی تکمیل تک، جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سرگزشت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس وجود کی پیدائش کے لیے فطرت نے اس درجہ اہتمام کیا ہے کیا یہ سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ وہ پیدا ہو، جھائے پیے اور مر کر فنا ہوجائے؟ فتعالی اللہ الملک الحق لا الہ الا ھو رب العرش الکریم۔ قدرتی طور پر یہاں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر وجود حیوانی اپنے ماضی میں ہمیشہ یکے بعد دیگرے متغیر ہوتا اور ترقی کرتا رہا ہے تو مستقبل میں بھی یہ تغیر و ارتقا کیوں جاری نہ رہے؟ اگر اس بات پر ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا کہ ماضی میں بیشمار صورتیں مٹیں اور نئی زندگیاں ظہور میں آئیں تو اس بات پر کیوں تعجب ہو کہ موجودہ زندگی کا مٹنا بھی بالکل مٹ جانا نہیں ہے اس کے بعد بھی ایک اعلی تر صورت اور زندگی ہے؟ ”أَیَحْسَبُ الإنْسَانُ أَنْ یُتْرَکَ سُدًی (٣٦)أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِنْ مَنِیٍّ یُمْنَی (٣٧) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی (٣٨): کیا انسان خیال کرتا ہے کہ وہ مہمل چھوڑ دیا جائے گا (اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہوگی؟) کیا اس پر یہ حالت نہیں گزر چکی ہے کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا پھر نفہ سے علقہ ہوا (یعنی جونک کی سی شکل ہوگئی) پھر عقلہ سے (اس کا ڈیل ڈول) پیدا کیا گیا، پھر ( اس ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا“ (القیمہ)۔ سورۃ ذاریات میں تمام تر دین یعنی جزا کا بیان ہے ” انما توعدون لصادق و ان الدین لواقع“ اور پھر اس پر اعمال ربوبیت سے یعنی ہواؤں کے چلنے اور پانی برسنے کے مؤثرات سے استشہاد کیا گیا ہے۔ ” والذاریات ذروا فالحاملات وقرا فالجاریات یسرا فا لمقسمات امرا“ پھر آسمان اور زمین کی بخشایشوں پر اور خود وجود انسانی کی اندرونی شہادتوں پر توجہ دلائی ہے۔ ” وفی الارض ایات للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون وفی السماء رزقکم وما توعدون۔ اس کے بعد فرمایا۔ ” فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون : آسمان و زمین کے رب کی قسم ! (یعنی آسمان و زمین کے پروردگار کی پروردگار شہادت دے رہی ہے) کہ بلاشبہ وہ معاملہ (یعنی جزا وسزا کا معاملہ) حق ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو“۔ اس آیت میں اثبات جزا کے لیے خدا نے خود اپنے وجود کی قسم کھائی ہے لیکن رب کے لفظ اسے اپنے آپ کو تعبیر کیا ہے۔ عربی میں قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر کسی بات سے شہادت لائی جائے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ پروردگار عالم کی پروردگار شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حق ہے۔ یہ شہادت کیا ہے؟ وہی ربوبیت کی شہادت ہے۔ اگر دنیا میں پرورش موجود ہے، پروردہ موجود ہے اور اس لیے پروردگار بھی موجود ہے تو ممکن نہیں کہ جزا کا معاملہ بھی موجود نہ ہو۔ اور وہ بغیر کسی نتیجہ کے انسان کو چھوڑ دے۔ چونکہ لوگوں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی۔ اس لیے اس آیت میں قسم مقسم بہ کا ربط صحیح طور پر متعین نہ کرسکے۔ قرآن حکیم کے دلائل و براہین پر غور کرتے ہوئے یہ اصل ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے استدلال کا طریقہ منطقی بحث و تقریر کا طریقہ نہیں ہے جس کے لیے چند در چند مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اثبات مدعا کی شکلیں ترتیب دینی پڑتی ہیں بلکہ وہ ہمیشہ براہ راست تلقین کا قدری اور سیدھا سادھا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ عموماً اس کے دلائل اس کے اسلوب بیان و خطاب میں مضمر ہوتے ہیں۔ وہ یا تو کسی مطلب کے لیے اسلوب خطاب ایسا اختیار کرتا ہے کہ اسی سے استدلال کی روشنی نمودار ہوجاتی ہے۔ یا پھر کسی مطلب پر زور دیتے ہوئے کوئی ایک لفظ ایسا بول جاتا ہے کہ اس کی تعبیر ہی میں اس کی دلیل بھی موجود ہوتی ہے اور خود بخود مخاطب کا ذہن دلیل کی طرف پھر جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک واضح مثال یہی صفت ربوبیت کا جابجا استعمال ہے۔ جب وہ خدا کی ہستی کا ذکر کرتا ہوا اسے رب کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے تو یہ بات کہ وہ رب ہے جس طرح اس کی ایک صفت ظاہر کرتی ہے اسی طرح اس کی دلیل بھی واضح کردیتی ہے۔ وہ رب ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی ربوبیت تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور خود تمہارے دل کے اندر گھر بنائے ہوئے ہے۔ پھر کیونکر تم جرات کرسکتے ہو کہ اس کی ہستی سے انکار کرو؟ وہ رب ہے اور رب کے سوا کون ہوسکتا ہے جو تمہاری بندگی ونیاز کا مستحق ہو؟ چنانچہ قرآن کے وہ تمام مقامات جہاں اس طرح کے مخاطبات ہیں کہ ” یا ایہا الناس اعبدوا ربکم۔ اعبدوا اللہ ربی ربی و ربکم۔ ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوہ۔ ذلکم اللہ ربکم فاعبدوہ۔ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فادبودن۔ قل اتحاجوننا فی اللہ؟ وھو ربنا وربکم“ وغیرہ تو انہیں مجرد امر و خطاب ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ خطاب و دلیل دونوں ہیں کیونک ہرب کے لفظ نے برہان ربوبیت کی طرف خود بخود رہنمائی کردی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی کیونکہ منطقی استدلال کے استغراق نے انہیں قرآن کے طریق استدلال سے بے پروا کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات کے ترجمہ وتفسیر میں قرآن کے اسلوب بیان کی حقیق روح واضح نہ ہوسکی اور استدلال کا پہلو طرح طرح طرح کی توجیہات میں گم ہوگیا۔ (آیت 1 الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر ختم ہوئی) الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ الرحمن اور الرحیم دونوں رحم سے ہیں۔ عربی میں رحمت عواطف کی ایسی رقت و نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لیے احسان و شفقت کا ارادہ جوش میں آجائے۔ پس رحمت میں محبت، شفقت، فضل اور احسان سب کا مفہوم داخل ہے اور مجرد محبت، لطف اور فضل سے زیادہ سیع اور حاوی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اسم رحمت سے ہیں لیکن رحمت کے دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں َ عربی میں فعلان کا باب عموماً ایسے صفات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض صفات عارضہ ہوتے ہیں۔ جیسے پیاسے کے لیے عطشان۔ غضبناک کے لیے غضبان۔ سراسیمہ کے لیے حیران، مست کے لیے سکران۔ لیکن فعیل کے وزن میں صفات قائمہ کا خاصہ ہے۔ یعنی عموماً ایسے صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو جذبا و عواض ہونے کی جگہ صفات قائمہ ہوتے ہیں مثلا کریم کریم کرنے والا۔ عظیم بڑائی رکھنے والا اور علیم علم رکھنے والا، حکیم حکمت رکھنے والا۔ پس الرحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں رحمت ہے اور الرحیم کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس سے ہمیشہ رحمت کا ظہور ہوتا ہے رہتا ہے اور ہرآن و ہر لمحہ تمام کائنات خلقت اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ رحمت کو دو الگ الگ اسموں سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اس لیے کہ قرآن مجید خدا کے تصور کا جو نقشہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہے اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور چھائی ہوئی صفت رحمت ہی کی صفت ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ تمام تر رحمت ہی ہے : ” ارحمتی وسعت کل شیء : اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے“ (الاعراف :156)۔ پس ضروری تھا کہ خصوصیت کے ساتھ اس کی صفتی اور فعلی دونوں حیثیتیں واضح کردی جائیں یعنی اس میں رحمت ہے کیونکہ وہ الرحمن ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اس سے رحمت کا ظہور بھی ہو رہا ہے کیونکہ الرحمن کے ساتھ وہ الرحیم بھی ہے۔ رحمت : لیکن اللہ کی رحمت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے : کائنات ہستی میں جو کچھ بھی خوبی و کمال ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا ظہور ہے ! جب ہم کائنات ہستی کے اعمال و مظاہر پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ اس کا نظام ربوبیت ہے۔ کیونکہ فطرت سے ہماری پہلی شناسائی ربوبیت کے ذریعہ ہوتی ہے لیکن جب علم و ادراک کی راہ میں چند قدم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ربوبیت سے بھی ایک زیادہ وسیع اور عام حقیقت یہاں کار فرما ہے اور خود ربوبیت بھی اسی کے فیضان کا ایک گوشہ ہے۔ ربوبیت اور اس کا نظام کیا ہے؟ کائنات ہستی کی پرورش ہے لیکن کائنات ہستی میں صرف پرورش ہی نہیں ہے۔ پرورش سے بھی ایک زیادہ بنانے سنوارنے اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بناؤ اس کے بناؤ میں خوبی ہے، اس کے مزاج میں اعتدال ہے، اس کے افعال میں خواص ہیں، اس کی صورت میں حسن ہے، اس کی صداؤں میں نغمہ ہے، اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور اس کی کوئی بات نہیں جو اس کارخانہ کی تعمیر و درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پس یہ حقیقت جو اپنے بناؤ اور فیضان میں ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ رحمت ہے اور خالق کائنات کی رحمانیت اور رحیمیت کا ظہور ہے۔ تعمیر و تحسینِ کائنات رحمت الٰہی کا نتیجہ ہے : زندگی اور حرکت کا یہ عالمگیر کارخانہ وجود ہی میں نہ آتا اگر اپنے ہر فعل میں بننے بنانے، سنورنے سنوارنے اور ہر طرح بہتر و اصلح ہونے کا خاصہ نہ رکھتا۔ فطرت کائنات میں یہ خاصہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ بناؤ ہو بگاڑ نہ ہو۔ درستگی ہو برہمی نہ ہو لیکن کیوں ایسا ہو کہ فطرت بنائے اور سنوارے، بگاڑے اور الجھائے نہیں؟ یہ کیا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے درست اور بہتر ہی ہوتا ہے۔ خراب اور بدتر نہیں ہوتا؟ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کرسکیں۔ فلسفہ نظر کا قدم جب کبھی اس حد تک پہنچا دم بخود ہو کر رہ گیا لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لیے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بنتاؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادہ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے، کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہے خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود، زندگی، تندرستی، حسن، خوشبو، نغمہ، بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔ لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہوا کہ عناصر کے دقائق جب ملیں تو اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو، انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لیے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت ظہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہوگا اس میں خوبی و بہتری ہی ہوگی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال و تناسب ہی ہوگا اور اس کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا ! فلسفہ ہمیں بتلاتا ہے کہ تعمیر اور تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصہ تعمیر چاہتا ہے کہ بناؤ ہو، خاصہ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی وکمال کے ساتھ بنے اور یہ دونوں خاصے قانون ضرورت کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو، اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی ضرور بجائے خود ایک علت ہوگئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا؟ سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ ضرورت کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ضرورت کا قانون کیوں موجود ہے؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے ضرورت کے مطابق ہو اور ضرورت اسی بات کی مقتضی ہوئی کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور برہمی نہ ہو؟ انسانی علم کی کاوشیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ ایک مشہور فلسفی کے لفظوں میں ” جس جگہ سے یہ کیوں شروع ہوجائے سمجھ جاؤ کہ فلسفہ کے غور و خوض کی سرحد ختم ہوگئی“۔ لیکن قرآن اسی سوال کا جواب دیتا ہے وہ کہتا ہے یہ ” ضرورت“ رحمت اور فضل کی ” ضرورت“ ہے۔ رحمت چاہتی ہے جو کچھ ظہور میں آئے بہتر ہو اور نافع ہو اور اس لیے جو کچھ ظہور میں آتا ہے بہتر ہوتا ہے اور نافع ہوتا ہے ! پھر یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ دنیا میں زندگی اور بقا کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے جمال و زیبائی ان سے ایک زائد تر فیضان ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے۔ پس یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ قانون ضرورت ہی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت زندگی اور بقا کا سر و سامان چاہتی ہے لیکن زندہ اور باقی رہنے کے لیے جمال و زیبائش کی کیا ضرورت ہے؟ اگر جمال وزیبائش بھی یہاں موجود ہے تو یقینا یہ فطرت کا ایک مزید لطف و احسان ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت صرف زندگی ہی نہیں بخشتی بلکہ زندگی کو حسین و لطیف بھی بنانا چاہتی ہے۔ پس یہ محض زندگی کی ضرورت کا قانون نہیں ہوسکتا۔ یہ اس ضرورت سے بھی کوئی بالا تر ضرورت ہے جو چاہتی ہے کہ مرحمت اور فیضان ہو۔ قرآن کہتا ہے یہ رحمت کی ” ضرورت“ ہے اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ وہ سب کچھ ظہور میں آئے جو رحمت سے ظہور میں آنا چاہیے : ” قل لمن ما فی السموات والارض قل للہ کتب علی نفسہ الرحمۃ: آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کے لیے ہے؟ (اے پیغمبر) کہہ دے اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لیے ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ رحمت ہو“ (الانعام : 12)۔ ” ورحمتی وسعت کل شیء : اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے“ افادہ فیضانِ فطرت : اس سلسلہ کی سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ کائنات ہستی اور اس کی تمام اشیا کا افادہ و فیضان ہے۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام کاموں میں کامل نظم ویکسانیت کے ساتھ مفید اور کار آمد ہونے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور اگر بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارگاہ عالم صرف اسی لیے بنا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہماری حاجت روائیوں کا ذریعہ ہو : ” وسخر لکم ما فی السموات والارض جمیعا منہ۔ ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون : اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے (یعنی ان کی قوتیں اور تاثیریں اس طرح تمہارے تصرف میں دیدی گئی ہیں کہ جس طرح چاہو کام لے سکتے ہو) بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس بات میں (معرفت حق کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (45 :، 13) اس آیت میں اور اس کی تمام ہم معنی آیات میں ” سخر“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہیں۔ عربی میں تسخیر ٹھیک ٹھیک اسی معنی میں بولا جاتا ہے جس معنی میں ہم اردو میں بولا کرتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کا قہراً و حکماً اس طرح مطیع ہوجانا کہ جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ غور کرو انسانی قوی کی عظمت و سروری کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ موزوں تعبیر اور کیا ہوسکتی تھی؟ قرآن کے نزول سے پہلے اقوام عالم کی دینی ذہنیت انسان کی عقلی امنگوں کے قطعاً خلاف تھی۔ لیکن قرآن نے صرف یہی نہیں کہ اس کی عقلی امنگوں کی جرات افزائی کردی بلکہ اس کی ہمت عقل اور اولو العزمی حلم کے لیے ایک ایسی بلند نظری کا نقشہ کھینچ دیا جس سے بہتر نقشہ آج بھی نہیں کھینچا جاسکتا۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس لیے ہے کہ انسان کے آگے مسخر ہو کر رہے اور انسان ان میں تصرف کرے۔ انسانی عقل و فر کے لیے اس سے زیادہ بلند نصب العین اور کیا ہوسکتا ہے؟ پھر غور کرو ” تسخیر“ کا لفظ انسانی عقل کی حکمرانیوں کے لیے کس درجہ موزوں لفظ ہے؟ اس تسخیر کا قدیم منظر یہ تھا کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ لکڑی کے دو گز تختے جوڑ کر سمندر کے سینے پر سوار ہوجاتا تھا اور نیا منظر یہ ہے کہ آگ، پانی، ہوا اور بجلی تمام عناصر پر حکمرانی کر رہا ہے ! البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں کہیں اس تسخیر کا ذکر کیا ہے اس کا تعلق صرف کرہ ارضی کی کائنات سے ہے یا آسمان کے ان مؤثرات سے ہے جنہیں ہم یہاں محسوس کر رہے ہیں یہ نہیں کہا ہے کہ تمام موجودات ہستی اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں۔ یا تمام موجودات ہستی میں وہ اشرف و اعلی مخلوق ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کائنات ہستی کے بے کنار سمندر میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں۔ وما یعلم جنود ربک الا ہو۔ اور انسان کو جو کچھ بھی برتری حاصل ہے وہ صرف اسی دنیا کی مخلوقات میں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہستی میں جو کچھ بھی موجود ہے، اور جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے اس میں سے ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ رکھتی ہے اور ہر حادثہ کی کوئی نہ کوئی تاثیر ہے اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ تمام خواص و مؤثرات کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ہر خاصہ ہماری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتا اور ہر تاثیر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی فیضان رکھتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، ہوا، بارش، دریا، سمندر اور پہاڑ سب کے خواص و فوائد ہیں، اور سب ہمارے لیے طرح طرح کی راحتوں اور آسائشوں کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں : ” اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الأنْہَارَ (٣٢) وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ (٣٣) وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لا تُحْصُوہَا إِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (٣٤): یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کی تاثیر سے طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا کردیے۔ اسی طرح اس نے یہ بات بھی ٹھہرا دی کہ سمندر میں جہاز تمہارے زیر فرمان رہتے، اور حکم الٰہی سے چلتے رہتے ہیں، اور اسی طرح دریا بھی تمہاری کار برآریوں کے لیے مسخر کردیے گئے اور (پھر اتنا ہی نہیں بلکہ غور کرو تو) سورج اور چاند بھی تمہارے لیے مسخر کردیے گئے ہیں کہ ایک خاص ڈھنگ پر گردش میں ہیں اور رات اور دن کا اختلاف بھی (تمہارے فائدہ ہی کے لیے) مسخر ہے۔ غرض کہ جو کچھ تمہیں مطلوب تھا وہ سب کچھ اس نے عطا کردیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ ہرگز شمار نہ کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑا ہی نا شکرا ہے“ (ابراہیم : 32-34) زمین کو دیکھو، اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں گہرائی سے چاندی سونا نکل رہا ہے وہ اپنی جسامت میں اگرچہ مدور ہے لیکن اس کا ہر حصہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک مسطح فرش بچھا دیا گیا ہے۔ ” الذی جعل لکم الارض مہدا وجعل لکم فیھا سبلا لعلکم تھتدون : وہ پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین اس طرح بنا دی کہ فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور اس میں قطع مسافت کی (ہموار) راہیں پیدا کردیں“ (43:، 10) ” وَہُوَ الَّذِی مَدَّ الأرْضَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْہَارًا وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (٣) وَفِی الأرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِی الأکُلِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (٤): اور یہ اسی پروردگار کی پروردگاری ہے کہ اس نے زمین (تمہاری سکونت کے لیے) پھیلا دی اور اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور نہریں بہا دیں، نیز ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کردیں، اور پھر یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ ( رات اور دن یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں اور) رات کی تاریکی دن کی روشنی ڈھانپ لیتی ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس میں ( معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ اور (پھر دیکھو) زمین کی سطح اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے قریب (آبادی کے) قطعات بن گئے اور انگوروں کے باغ، غلہ کی کھیتیاں اور کھجوروں کے جھنڈ پیدا ہوگئے، ان درختوں میں بعض درخت زیادہ ٹہنیوں والے ہیں۔ بعض اکہرے، اور اگرچہ سب کو ایک ہی طرح کے پانی سے سینچا جاتا ہے لیکن پھل ایک طرح کے نہیں۔ ہم نے بعض درختوں کو بعض درختوں پر پھلوں کے مزہ میں برتری دے دی۔ بلا شبہ ارباب دانش کے لیے اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (الرعد :3-4) ” القد مکناکم فی الارض و جعلنا لکم فیہا معایش قلیلا ما تشکرون : اور (دیکھو) ہم نے زمین میں تمہیں طاقت و تصرف کے ساتھ جگہ دی، اور زندگی کے تمام سامان پیدا کردیے (مگر افسوس) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نعمت الٰہی کے شکر گزار ہو“ (الاعراف : 10) ” وَہُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْکُلُوا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُونَہَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیہِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ : اور (دیکھو) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اپنی غذا کے لیے تر و تازہ گوشت حاصل کرو اور زیور کی چیزیں نکالو جنہیں (خوشنمائی کے لیے) پہنتے ہو۔ نیز تم دیکھتے ہو کہ جہاز سمندر میں موجیں چیرتے ہوئے جا رہے ہیں۔ اور سیر و سیاحت کے ذریعہ اللہ کا فضل تلاش کرو تاکہ اس کی کی نعمت کے شکر گزار رہو“ (النحل :14) حیوانات کو دیکھو، زمین کے چار پائے، فضا کے پرند اور پانی کی مچھلیاں سب اسی لیے ہیں کہ اپنے اپنے وجود سے ہمیں فائدہ پہنچائیں۔ غذا کے لیے ان کا دودھ اور گوشت، سواری کے لیے ان کی پیٹھ، حفاظت کے لیے ان کی پاسبانی، پہننے کے لیے ان کی کھال اور اون اور برتنے کے لیے ان کے جسم کی ہڈیاں تک مفید ہیں ! : ” وَالأنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ (٥) وَلَکُمْ فِیہَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ (٦) وَتَحْمِلُ أَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بَالِغِیہِ إِلا بِشِقِّ الأنْفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ (٧) وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَۃً وَیَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ (٨): اور چارپائے پیدا کردیے جن میں تمہارے لیے جاڑے کا سامان اور طرح طرح کے منافع ہیں اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ جب ان کے غول شام کو چر کر واپس آتے ہیں اور جب چراگاہوں کے لیے نکلتے ہیں تو (دیکھو) ان کے منظر میں تمہارے لیے خوشنمائی رکھ دی ہے۔ اور انہی میں وہ جانور بھی ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ان (دور دراز) شہروں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تک تم بغیر سخت مشقت کے نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بلا شبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور صاحب رحمت ہے۔ اور (دیکھو) گھوڑے، خچر، گدھے پیدا کیے گئے تاکہ تم ان سے سواری کا کام لو اور خوشنمائی کا بھی موجب ہوں۔ وہ اسی طرح (طرح طرح کی چیزیں) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں“ (النحل : 8-8) ” وَإِنَّ لَکُمْ فِی الأنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ (٦٦): اور چارپایوں کے وجود میں تمہارے لیے (فہم و بصیرت کی) بڑی ہی عبرت ہے۔ انہی جانوروں کے جسم سے ہم خون اور کثافتوں کے درمیان پاک و صاف دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے“ (النحل : 66) ” وَاللَّہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ بُیُوتِکُمْ سَکَنًا وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ جُلُودِ الأنْعَامِ بُیُوتًا تَسْتَخِفُّونَہَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِکُمْ وَمِنْ أَصْوَافِہَا وَأَوْبَارِہَا وَأَشْعَارِہَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَی حِینٍ : اور (دیکھو) اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکونت کی جگہ بنایا اور ( جو لوگ شہروں میں نہیں بستے ان کے لیے ایسا سامان کردیا کہ) چارپایوں کی کھال کے خیمے بنا دیے۔ سفر اور اقامت دونوں حالتوں میں انہیں ہلکا پاتے ہو۔ اسی طرح جانوروں کی اون، رووں، اور بالوں سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کردیں جن سے ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ پہنچتا ہے“ (النحل : 80) ایک انسان کتنی ہی محدود اور غیر متمدن زندگی رکھتا ہو لیکن اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتا کہ اس کا گرد و پیش اسے فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ایک لکڑ ہارا بھی اپنے جھونپڑے میں بیٹھا ہوا نظر آتھاتا ہے تو گویا اپنے احساس کے لیے بہتر تعبیر نہ پائے لیکن یہ حقیقت ضرور محسوس کرلیتا ہے۔ وہ جب بیمار ہوتا ہے تو جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا لیتا ہے۔ دھوپ تیز ہوتی ہے تو درختوں کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے بیکار ہوتا ہے تو پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کی خوشنمائی سے آنکھیں سینکنے لگتا ہے۔ پھر یہی درخت ہیں جو اپنی شادابی میں اسے پھل بخشتے ہیں پختگی میں لکڑی کے تختے بن جاتے ہیں کہنگی میں آگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں۔ ایک ہی مخلوق بنائی ہے جو اپنے منظر سے نزہت و سرور بخشتی ہے، اپنی بو سے ہوا کو معطر کرتی ہے، اپنے پھل میں طرح طرح کی غذائیں رکھتی ہے، اپنی لکڑی سے سامان تعمیر مہیا کرتی ہے، اور پھر خشک ہوجاتی ہے تو اس کے جلانے سے آگ بھڑکتی، چولھے گرم کرتی، موسم کو معتدل بناتی، اور اپنی حرارت سے بے شمار اشیا کے پکنے، پگھلنے اور تپنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ” الذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منہ توقدون : (اور دیکھو) وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردی۔ اب تم اسی سے (اپنے چولھوں کی) آگ سلگا لیتے ہو“ (36:، 80) اور پھر یہ وہ فوائد ہیں جو تمہیں اپنی جگہ محسوس ہو رہے ہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ فطرت نے یہ تمام چیزیں کن کن کاموں اور کن کن مصلحتوں کے لیے پیدا کی ہیں اور کار فرمائے عالم کارگاہ ہستی کے بنانے اور سنوارنے کے لیے ان سے کیا کام نہیں لے رہا ہے؟ : ” وما یعلم جنود ربک الا ھو : اور تمہارا پروردگار ( اس کار زار ہستی کی کارفرمائیوں کے لیے) جو فوجیں رکھتا ہے ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟“ پھر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ فطرت نے کائنات ہستی کے افادہ و فیضان کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت ہر مخلوق کو یکساں طور پر نفع پہنچا تاکہ اور ہر مخلوق کی یکساں طور پر رعایت ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنے عالی شان محل میں بیٹھ کر محسوس کرتا ہے کہ تمام کارخانہ ہستی صرف اسی کی کار براریوں کے لیے تو ٹھیک اسی طرح ایک چیونٹی بھی اپنے بل میں کہہ سکتی ہے کہ فطرت کی ساری کارفرمائیاں صرف اسی کی کاربراریوں کے لیے ہیں اور کون ہے جو اسے جھٹلانے کی جرات کرسکتا ہے؟ کیا فی الحقیقت سورج اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے حرارت بہم پہنچائے؟ کیا بارش اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے رطوبت مہیا کرے؟ کیا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ناک تک شکر کی بو پہنچا دے؟ کیا زمین اس لیے نہیں ہے کہ ہر موسم اور ہر حالت کے مطابق اس کے لیے مقام و منزل بنے؟ در اصل فطرت کی بخشایشوں کا قانون کچھ ایسا عام اور ہمہ گیر واقع ہوا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی طریقہ سے، ایک ہی نظام کے ماتحت، ہر مخلوق کی نگہداشت کرتا اور ہر مخلوق کو یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ حتی کہ ہر وجود اپنی جگہ محسوس کرسکتا ہے کہ یہ پورا کارخانہ عالم صرف اسی کی کام جوئیوں اور آسائشوں کے لیے سرگرم کار ہے۔ ” ومامن دابۃ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم : اور زمین کے تمام جانور ( اور پردار) بازوؤں سے اڑنے والے تمام پرند در اصل تمہاری ہی طرح امتیں ہیں“۔ کائنت کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے : البتہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم کون و فساد ہے۔ یہاں ہر بنے کے ساتھ بگڑنا ہے اور ہر سمٹنے کے ساتھ بکھرنا۔ لیکن جس طرح سنگ تراش کا توڑنا پھوڑنا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کا ایک پیکر تیار کردے اسی طرح کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔ تم ایک عمارت بناتے ہو لیکن اس ” بنانے“ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ بہت سے بنی ہوئی چیزیں بگڑ گئیں؟ چٹانیں اگر نہ کاٹی جاتیں، بھٹے اگر سلگائے جاتے، درختوں پر آرہ اگر نہ چلتا تو ظاہر ہے عمارت کا بناؤ بھی ظہور میں نہ آتا۔ پھر یہ راحت و سکون جو تمہیں ایک عمارت کی سکونت سے حاصل ہوتا ہے کس صورت حال کا نتیجہ ہے؟ یقینا اسی شور و شر اور ہنگامہ تخریب کا جو سروسامان تعمیر کی جدو جہد نے عرصہ تک جاری رکھا تھا۔ اگر تخریبھ کا یہ شور و شر نہ ہوتا تو عمارت کا عیش و سکون بھی وجود میں نہ آتا۔ پس یہی حال فطرت کی تعمیری سرگرمیوں کا بھی سمجھو۔ وہ عمارت ہستی کا ایک ایک گوشہ تعمیر کرتی رہتی ہے، وہ اس کارخانہ کا ایک ایک کیل پرزہ ڈھالتی رہتی ہے، وہ اس کی درستگی و خوبی کی حفاظت کے لیے ہر نقصان کا دفعیہ اور ہر فساد کا ازالہ چاہتی ہے۔ تعیر و درستگی کی یہی سرگرمیاں ہیں جو تمہیں بعض اوقات تخریب و نقصان کی ہولناکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ حالانکہ یہاں تخریب کب ہے؟ جو کچھ ہے تعمیر ہی تعمیر ہے۔ سمندر میں تلاطم، دریا میں طغیانی، پہاڑوں میں آتش فشانی، جاڑوں میں برف باری، گرمیوں میں سموم، اور بارش میں ہنگامہ ابر و باد، تمہارے لیے خوش آئند مناظر نہیں ہوتے لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہر حادثہ کائنات ہستی کی تعمیر و درستگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیا کی کوئی مفید سے مفید چیز تمہاری نگاہ میں ہوسکتی ہے۔ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح پارہ پارہ کردیتا۔ تم بول اٹھو گے، یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا؟ لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشوونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہوجاتا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے جابجا اشارات کیے ہیں۔ مثلا سورۃ روم میں ہے : ” وَمِنْ آیَاتِہِ یُرِیکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِی بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ : اور (دیکھو) اس کی (قدرت و حکمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ بجلی کی چمک اور کڑک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں حالتیں طاری ہوجاتی ہیں اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل و بینش رکھتے ہیں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں ! جمال فطرت : لیکن فطرت کے افادہ فیضان کی سب سے بڑی بخشایش اس کا عالمگیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں بلکہ اس طرح بناتی سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بناؤ میں حسن و زیبائی کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہوگئی ہے۔ کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش، سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھاؤ، فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات، سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب، حیوانات کے اجسام اور ان کا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ و چمن کی رعنائیاں، پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محجوب، غرض کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے حسن و زبیائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے نشاط، سامعہ کے لیے سرور، اور روح کے لیے بہشت راحت و سکون بن جائے ! دراصل کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے۔ فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے، اسی طرح اس کی خبروئی و رعنائی کے لیے معنوی عناصر کا بھی رنگ و روغن آراستہ کردیا۔ روشنی، رنگ، خوشبو، اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزا ہیں جن سے مشاطہ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کر رہی ہے : مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار۔ چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسد !۔ ” صنع اللہ الذی اتقن کل شیء : یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستگی کے ساتھ بنائی“۔ ” ذلک عالم الغیب والشہادۃ العزیز الرحیم۔ الذی احسن کل شیء خلقہ۔ : یہ اللہ ہے محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا، طاقت والا، رحمت والا جس نے جو چیز بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی“۔ بلبل کی نغمہ سنجی اور زاغ و زغن کا شور و غوغا : بلاشبہ کاروبار فطرت کے بعض مظاہر ایسے بھی ہیں جن میں تمہیں حسن و خوبی کی کوئی گیرائی محسوس نہیں ہوتی۔ تم کہتے ہو قمری و بلبل کی نغمہ سنجیوں کے ساتھ زاغ و زغن کا شور و غوغا کیوں کیوں ہے؟ لیکن تم بھول جاتے ہو کہ ارغنون ہستی کا نغمہ کسی ایک آہنگ ہی سے نہیں بنا ہے اور نہ بننا چاہیے تھا۔ جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیر و بم کے تمام آہنگ موجود ہیں۔ اس میں ہلکے سے ہلکے سر بھی ہیں جن سے باریک اور سریلی صدائیں نکلتی ہیں موٹے سے موٹ سر بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھاری صدائی پیدا کرتے ہیں۔ ان تمام سروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی موسیقی کی حلاوت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مختلف اجزا کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی ایک ہی سر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہوجائے۔ اگر تم بین یا ستار اٹھا کر صرف اس کے چڑھاؤ کا کوئی ایک پردہ چھیڑ دو گے یا پیانو کی بھاری کنجیوں میں سے کوئی ایک کنجی ہی بجانے لگو گے تو یہ نغمہ نہ ہوگا بھاں بھاں کی ایک کرخت آواز ہوگی۔ یہاں حال موسیقی فطرت کے زیر وبم کا ہے۔ تمہیں کوے کی کائیں کائیں اور چیک کی چیخ میں کوئی دلکشی محسوس نہیں ہوتی لیکن موسیقی فطرت کی تالیف کے لیے جس طرح قمری و بلبل کا ہلکا سر ضروری تھا اسی طرح زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سر بھی ناگزیر تھا، بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کو چڑھاؤ۔ بر اہل ذوق در فیض در نمی بندد۔ نوائے بلبل اگر نیست صوت زاغ شنو۔ ” تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِیہِنَّ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا : ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں ہے سب (اپنی بناوٹ کی خوبی اور صنعت کے کمال میں) اللہ کی بڑائی اور پاکی کا (زبان حال سے) اعتراف کر رہے ہیں اور ( اتنا ہی نہیں بلکہ کائنات خلقت میں) کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو ( زبان حال سے) اس کی تسبیح و تحمید نہ کر رہی ہو مگر ( افسوس کہ) تم ( اپنے جہل و غفلت سے) اس ترانہ تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ فطرت کی حسن افروزیاں اور رحمت الٰہی کی بخشش !: آؤ چند لمحوں کے لیے پھر ان سوالات پر غور کرلیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ فطرت کائنات کی یہ تمام حسن افروزیاں اور جلوہ آرائیاں کیوں ہیں؟ یہ کیوں ہے کہ فطرت حسین ہے اور جو کچھ اس سے ظہور میں آتا ہے وہ حسن و جمال ہی ہوتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ ہستی ہوتا لیکن رنگ کی نظر افروزیاں، بو کی عطر بیزیاں اور نغمہ کی جاں نوازیاں نہ ہوتیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ سب کچھ ہوتا لیکن سبزہ و گل کی رعنائیاں اور قمری و بلبل کی نغمہ سنجیاں نہ ہوتیں؟ یقینا دنیا اپنے بننے کے لیے اس کی محتاج نہ تھی کہ تتلی کے پروں میں عجیب و غریب نقش و نگا رہوں اور رنگ برنگ کے دلفریب پرند درختوں کی شاخوں پر چہچہا رہے ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ درخت ہوتے مگر قامت کی بلندی، پھیلاؤ کی موزونیت، شاخوں کی ترتیب، پتوں کی سبزی اور پھولوں کی رنگا رنگی نہ ہوتی۔ پھر یہ کیوں ہے کہ تمام حیوانات اپنی اپنی حالت اور گردو پیش کے مطابق ڈیل ڈول کی موزونیت اور اعضا کا تناسب ضرور ہی رکھیں۔ اور کوئی وجود نہ ہو جو اپنی شکل و منظر میں ایک خاص طرح کا معتدل پیمانہ نہ رکھتا ہو؟ انسانی علم و نظر کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کرسکیں کہ یہاں تعمیر کے ساتھ تحسین کیوں ہے؟ مگر قرآن کہتا ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خالق کائنات الرحمن اور الرحیم ہے۔ یعنی اس میں رحمت ہے اور اس کی رحمت اپنا ظہور و فعل بھی رکھتی ہے۔ رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ بخشش ہو، فیضان ہو، جود و احسان ہو، پس اس نے ایک طرف تو ہمیں زندگی اور زندگی کے تمام احساس و عواطف دبخش دیے جو خوشنمائی اور بدنمائی میں امتیاز کرتے اور خوبی و جمال سے کیف و سرور حاصل کرتے ہیں دوسری طرف کارگاہ ہستی کو اپنی حسن آرائیوں اور جاں فزائیوں سے اس طرح آراستہ کردیا کہ اس کا ہر گشہ نگاہ کے لیے جنت، سامعہ کے لیے حلاوت اور روح کے لیے سرمایہ کیف و سرور بن گیا۔ ” فتبارک اللہ احسن الخالقین : پس کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی بنانے والوں میں سب سے زیادہ حسن و خوبی کے ساتھ بنانے والا“ (المومنون : 14) قدرت کا خود رو سامانِ راحت و سرور اور انسان کی ناشکری : ہم زندگی کی بناوٹی اور خود ساختہ آسائشوں میں اس درجہ منہمک ہوگئے ہیں کہ ہمیں قدرتی راحتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور بسا اوقات تو ہم ان کی قدر و قیمت کے اعتراف سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ لیکن اگر چند لمحوں کے لیے اپنے آپ کو اس غفلت سے بیدار کرلیں تو معلوم ہوجائے کہ کائنات ہستی کا حسن و جمال فطرت کی ایک عظیم اور بے پایاں بخشش ہے اور اگر یہ نہ ہوتی یا ہمیں اس کا احساس نہ ہوتا تو زندگی، زندگی نہ ہوتی، نہیں معلوم کیا چیز ہوجاتی۔ ممکن ہے موت کی بدحالیوں کا ایک تسلسل ہوتا ! ایک لمحہ کے لیے تصور کرو کہ دنیا موجود ہے مگر حسن و زیبائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے، ستارے ہیں مگر ان کی درخشندگی و جہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی نہیں ہے، درخت ہیں مگر بغیر سبزی کے، پھول ہیں مگر بغیر رنگ و بو کے، اشیا کا اعتدال، اجسام کا تناسب، صداؤں کا ترنم، روشنی و رنگت کی بو قلمونی ان میں سے کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی یا یوں کہا جائے کہ ہم میں ان کا احساس نہیں ہے۔ غور کرو ایک ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کیا بھیانک اور ہولناک منظر پیش کرتا ہے؟ ایسی زندگی جس میں ہن تو حسن کا احساس ہو نہ حسن کی جلوہ آرائی، نہ نگاہ کے لیے سرور ہو نہ سامعہ کے لیے حلاوت، نہ جذبات کی رقت ہو نہ محسوسات کی لطافت، یقینا عذاب و جانکاہی کی ایک ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لیکن جس قدرت نے ہمیں زندگی دی اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت یعنی حسن و زیابی کی بخشش سے بھی مالا مال کردے۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا۔ دوسرے ہاتھ سے تمام دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا۔ یہی حقیقت ہے جو ہمیں رحمت کی موجودگی کا یقین دلاتی ہے۔ اگر پردہ ہستی کے پیچھے صرف خالقیت ہی ہوتی، رحمت نہ ہوتی، یعنی پیدا کرنے یا پیدا ہوجانے کی قوت ہوتی مگر افادہ فیضان کا ارادہ نہ ہوتا، تو یقینا کائنات ہستی میں فطرت کے فض (رح) و احسان کا یہ عالمگیر مظاہرہ بھی نہ ہوتا ! ”أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الأرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلا ہُدًی وَلا کِتَابٍ مُنِیرٍ : کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب تمہارے لیے خدا نے مسخر کردیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی پوری کردی ہیں؟ انسانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو، یا ہدایت ہو، یا کوئی کتاب روشن“ (لقمان :20) انسانی طبیعت کی یہ عالمگیر کمزوری ہے کہ جب تک وہ ایک نعمت سے محروم نہیں ہوجاتا اس کی قدر وقیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کرسکتا۔ تم گنگا کے کنارے بستے ہو اس لیے تمہارے نزدیک زندگی کی سب سے زیادہ بے قدر چیز پانی ہے لیکن اگر یہی پانی چوبیس گھنٹے تک میسر نہ آئے تو تمہیں معلوم ہوجائے اس کی قدر و قیمت کا کیا حال ہے؟ یہی حال فطرت کے فیضان جمال کا بھی ہے۔ اس کے عام اور بے پردہ جلوے شب و روز تمہاری نگاہوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اس لیے تمہیں ان کی قدر و قیمت محسوس نہیں ہوتی۔ صبح اپنی ساری جلو آرائیوں کے ساتھ روز آتی ہے اس لیے تم بستر سے سر اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چاندنی اپنی ساری حسن افروزیوں کے ساتھ ہمیشہ نکھرتی رہتی ہے اس لیے تم کھڑکیاں بن کر کے سو جاتے ہو۔ لیکن جب یہ شب و روز کے جلوہ ہائے فطرت تمہاری نظروں سے روپوش ہوجاتے ہیں یا تم میں ان کے نظارہ و سماع کی استعداد باقی نہیں رہتی تو غور کرو اس وقت تمہارے احساسات کا کیا حال ہوتا ہے؟ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ان میں سے ہر چیز زندگی کی ایک بے بہا برکت اور معیشت کی ایک عظیم الشان نعمت تھی؟ سرد ملکوں کے باشندوں سے پوچھو جہاں سال کا بڑا حصہ ابر آلود گزرتا ہے کیا سورج کی کرنوں سے بڑھ کر بھی زندگی کی کوئی مسرت ہوسکتی ہے؟ ایک بیمارے سے پوچھو جو نقل و حرکت سے محرم بستر مرض پر پڑا ہے۔ وہ بتائے گا کہ آسمان کی صاف اور نیلگوں فضا کا ایک نظارہ راحت و سکون کی کتنی بڑی دولت ہے؟ ایک اندھا جو پیدائشی اندھا نہ تھا تمہیں بتا سکتا ہے کہ سورج کی روشنی اور باغ و چمن کی بہار دیکھے بغیر زندگی بسر کرنا کیسی ناقابل برداشت مصیبت ہے؟ تم بسا اوقات زندگی کی مصنوعی آسائوشوں کے لیے ترستے ہو اور خیال کرتے ہو کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت چاندی سونے کا ڈھیر اور جاہ و حشم کی نمائش ہے لیکن تم بھول جاتے ہو کہ زندگی کی حقیقی مسرتوں کا جو خود رو سامان فطرت نے ہر مخلوق کے لیے پیدا کر رکھا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی دولت و حشمت کونسا سامان نشاط مہیا کرسکتی ہے اور اگر ایک انسان کو وہ سب کچھ میسر ہو تو پھر اس کے بعد کیا باقی رہا جاتا ہے؟ جس دنیا میں سورج ہر روز چمکتا ہو، جس دنیا میں صبح ہر روز مشکراتی اور شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جس کی بہار سبزہ و گل سے لدی ہوئی اور جس کی فصلیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے گرانبار ہوں، جس دنیا میں روشنی اپنی چمک، رنگ اپنی بوقلمونی، خوشبو اپنی عطر بیزی، اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو، کیا اس دنیا کا کوئی باشندہ آسایش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہوسکتا ہے؟ کیا کسی آنکھ کے لیے جو دیکھ سکتی ہو اور کسی دماغ کے لیے جو محسوس کرسکتا ہو ایک ایسی دنیا میں نامرادی و بدبختی کا گلہ جائز ہے؟ قرآن نے جا بجا انسان کو اس کے اسی کفران نعمت پر توجہ دلائی ہے : ” وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لا تُحْصُوہَا إِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ : اور اس نے تمہیں وہ تمام چیزیں دے دیں جو تمہیں مطلوب تھیں اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی شمار نہیں کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑا ہی نا شکرا ہے“ (ابراہیم :34) جمال معنوی : پھر فطرت کی بخشایش جمال کے اس گوشہ پر بھی نظر ڈالو کہ اس نے جس طرح جسم و صورت کو حسن و زیبائی بخشی اسی طرح اس کی معنویت کو بھی جمال معنوی سے آراستہ کردیا۔ جسم و صورت کا جمال یہ ہے کہ ہر وجود کے ڈیل ڈول اور اعضاء و جوارح میں تناسب ہے۔ معنویت کا جمال یہ ہے کہ ہر چیز کی کیفیت اور باطنی قوی میں اعتدال ہے۔ اسی کیفیت کے اعتدال سے خواص اور فوائد پیدا ہوئے ہیں اور یہی اعتدال ہے جس نے حیوانات میں اداراک وھواس کی قوتیں بیدار کردیں اور پھر انسان کے درجہ میں پہنچ کر جوہر عقل و فکر کا چراغ روشن کردیا۔ ” وَاللَّہُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لا تَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ : اور (دیکھو) یہ اللہ کی کارفرمائی ہے کہ تم اپنی ماؤں کے شکم سے پیدا ہوتے ہو اور کسی طرح کی سمجھ بوجھ تم میں نہیں ہوتی لیکن اس نے تمہارے لیے دیکھنے سننے کے حواس بنا دیے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عقل دے دی تاکہ اس کی نعمت کے شکر گزار ہو۔ کائنات ہستی کے اسرار و غوامض بے شمار ہیں لیکن روح حیوانی کا جوہر ادراک زندگی کا سب سے زیادہ لاینحل عقدہ ہے۔ حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک ہر طرح کا احساس و ادراک رکھتے ہیں اور انسانی دماغ کے نہاں خانہ میں عقل و تفکر کا ایک چراغ روشن ہے۔ یہ قوت احساس، یہ قوت ادراک اور یہ قوت عقل کیونکر پیدا ہوئی؟ مادی عناصر کی ترکیب و امتزاج سے ایک ماورائے مادہ جوہر کس طرح ظہور میں آگیا؟ چیونٹی کو دیکھو اس کے دماغ کا حج سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہوگا۔ لیکن مادہ کے اس حقیر ترین عصبی ذرہ میں بھی احساس و ادراک، محنت و استقلال، ترتیب و تناسب، نظم و ضبط، اور صنعت و اختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں اور وہ اپنے اعمال حیات کی کرشمہ سازیوں سے ہم پر رعب اور حیرت کا عالم طاری کردیتی ہے۔ شہد کی مکھی کی کار فرمائیاں ہر روز تمہاری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ کون ہے جس نے ایک چھوٹی سی مکھی میں تعمیر و تحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کردی ہے؟ قرآن کہتا ہے یہ اس لیے کہ رحمت کا مقتضا جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال صوری سے دنیا آراستہ کردی ہے اسی طرح جمال معنوی کی بخشایشوں سے بھی اسے مالا مال کردیتی۔ ” ذَلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (٦) الَّذِی أَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہُ وَبَدَأَ خَلْقَ الإنْسَانِ مِنْ طِینٍ (٧) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلالَۃٍ مِنْ مَاءٍ مَہِینٍ (٨) ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَۃَ قَلِیلا مَا تَشْکُرُونَ : یہ محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا عزیز و رحیم ہے جس نے جو چیز بھی بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی۔ چنانچہ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی پھر اس کے توالد و تناسل کا سلسلہ (خون کے) خلاصہ سے جو پانی کا ایک حقیر سا قطرہ ہوتا ہے قائم کردیا۔ پھر اس کی تمام قوتوں کی درستگی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھوک دی اور (اس طرح) اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں۔ (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر !) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ (اللہ کی رحمت کا) شکر گزار ہو۔ بقائے انفع : لیکن کائنات ہستیکا یہ بناؤ، یہ حسن، یہ ارتقا قائم نہیں رہ سکتا تھا اگر اس میں خوبی کے بقا اور خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے؟ فطرت کا انتخاب ہے۔ فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے۔ وہ ہر گوشہ میں صرف خوبی اور بہتری ہی باقی رکھتی ہے۔ فساد اور نقص محو کردیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم اسے ” بقائے اصلح“ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ” اصلح“ یعنی Fittest، لیکن قرآن بقائے اصلح کی جگہ بقائے انفع کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے اس کارگاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو۔ کیونکہ یہاں رحمت کارفرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ فیضان ہو۔ وہ نقصان و برہمی گوارا نہیں کرسکتی۔ تم سونا کٹھالی میں ڈال کر آگ پر رکھتے ہو۔ کھوٹ جل جاتا ہے۔ خالص سونا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی مثال فطرت کے انتخاب کی ہے۔ کھوٹ میں نفع نہ تھا نابود کردیا گیا، سونے میں نفع تھا باقی رہ گیا۔ ”أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الأرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الأمْثَالَ : خدا نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی نالوں میں جس قدر سمائی تھی اس کے مطابق بہہ نکلے اور جس قدر کوڑا کرکٹ جھاگ بن کر اوپر آگیا تھا اسے سیلاب اٹھا کر بہا لے گیا۔ اسی طرح جب زیور یا اور کسی طرح کا سامان بنانے کے لیے (مختلف قسم کی دھاتیں) آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بھی جھاگ اٹھتا ہے اور میل کچیل کٹ کر نکل جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کردیتا ہے۔ جھاگ رائیگاں جائے گا (کیونکہ اس میں نفع نہ تھا) جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہوگا، وہ زمین میں باقی رہ جائے گی۔ تدریج وامہال : پھر اگر دقت نظر سے کام لو تو افادہ فیضان فطرت کی حقیقت کچھ انہی مظاہر پر موقوف نہیں ہے بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال وقوانین کا یہی سوال ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفظوں میں اسے تعبیر کرنا چاہو تو صرف فطرت کے فضل و رحمت ہی سے تعبیر کرسکتے ہو۔ تمہیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی۔ مثلاً اس کے قوانین کا عمل کبھی فوری اور اچانک نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتی ہے آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور اس تدریجی طرز عمل نے دنیا کے لیے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کردیا ہے۔ یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے اور اس کا ہر فعل عفو و درگزر کا دروازہ آخر تک کھلا رکھتا ہے۔ بلاشبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں۔ ان میں رد و بدل کا امکان نہیں۔ ” مایبدل القول لدی : ہماری یہاں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی اس میں کبھی تدبیلی نہیں ہوتی“ (ق :28)۔ اور اس لیے تم خیال کرنے لگتے ہو کہ ان کی قطعیت بے رحمی سے خالی نہیں لیکن تم نہیں سوچتے کہ جو قوانین اپنے نفاذ میں اس درجہ قطعی اور بے پروا ہیں وہی اپنی نوعیت میں کس درجہ عفو و درگزر اور مہلت بخشی و اصلاح کوشی کی روح بھی رکھتے ہیں؟ اسی لیے آیت مندرجہ صدر میں مایبد القول کے بعد ہی فرمایا ” وما انا بظلام للعبید : لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بندوں کے لیے زیادتی کرنے والے ہوں“ (ق :28)۔ فطرت اگر چاہتی تو ہر حالت بیک دفعہ ظہور میں آجاتی۔ یعنی اس کے قوانین کا نفاذ فوری اور ناگہانی ہوتا لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر حالت، ہر تاثیر، ہر انفعال کے ظہور و بلوغ کے لیے ایک خاص مدت مقرر کردی گئی ہے۔ اور ضروری ہے کہ بتدریج مختلف منزلیں پیش آئیں۔ پھر ہر منزل اپنے آثار و انداز رکھتی ہے اور آنے والے نتائج سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ زندگی اور موت کے قوانین پر غور کرو۔ کسی طرح زندگی بتدریج نشوونما پاتی اور کس طرح درجہ بدرجہ مختلف منزلوں سے گزرتی ہے۔ اور پھر کس طرح موت کمزوری وفساد کا ایک طول طویل سلسلہ ہے جو اپنے ابتدائی نقطوں سے شروع ہوتا اور یکے بعد دیگرے مختلف منزلیں طرے کرتا ہوا آخری نقطہ بلوغ تک پہنچا دیا کرتا ہے؟ تم بد پرہیزی کرتے ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ فوراً ہی ہلاک ہوجاؤ بلکہ بتدریج موت کی طرف بڑھنے لگتے ہو اور بالآخر ایک خاص مدت کے اندر جوہر صورت حال کے لیے یکساں نہیں ہوتی درجہ بدرجہ اترتے ہوئے موت کی آغوش میں جا گرتے ہو۔ نباتات کو دیکھو۔ درخت اگر آبیاری سے محروم ہوجاتے ہیں یا نقصان و سفاد کا کوئی دوسرا سبب عارض ہوجاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی دفعہ مرجھا کر رہ جائیں یا کھڑے کھڑے اچانک گر جائیں۔ بلکہ بتدریج شاقدابی کی جگہ پژمردگی کی حالت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایک خاص مدت کے اندر جو مقرر کردی گئی ہے یا تو بالک مرجھا کر رہ جاتے ہیں یا جڑ کھوکھلی ہو کر گرپڑتے ہیں۔ اصطلاح قرآنی میں ” اجل“: یہی حال کائنات کے تمام تغیرات و انفعالات کا ہے۔ کوئی تغیر ایسا نہیں جو اپنا تدریجی دور نہ رکھتا ہو۔ ہر چیز بتدریج بنتی ہے اور اسی طرح بتدریج بگڑتی ہے۔ بناؤ ہو یا بگاڑ، ممکن نہیں کہ ایک خاص مدت گزرے بغیر کوئی حالت بھی اپنی کامل صورت میں ظاہر ہوسکے۔ یہ مدت جو ہر حالت کے ظہور کے لیے اس کی ” اجل“ یعنی مقررہ وقت ہے مختلف گوشوں اور مختلف حالتوں میں مختلف مقدار رکھتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کی مقدار اتنی طویل ہوتی ہے کہ ہم اپنے نظام اوقات سے اس کا حساب بھی نہیں لگا سکتے۔ قرآن نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ جس مدت کو تم اپنے حساب میں ایک دن سمجھتے ہو اگر اسے ایک ہزار برس یا پچاس ہزار برس تصور کرلو تو ایسے دنوں سے جو مہینے اور برس بنیں گے ان کی مقدار کتنی ہوگی؟ ” وان یوم عند ربک کالف سنۃ مما تعدون : اور بلاشبہ تمہارے پروردگار کے حساب میں ایک دن یسا ہے جیسے تمہارے حساب میں ایک ہزار برس“ (22:، 47) ” تکویر“ : فطرت کا یہی تدریجی طرز عمل ہے جسے قرآن نے ” تکویر“ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی لپٹنے سے۔ وہ کہتا ہے : بجائے اس کے کہ اچانک دن کی روشنی نگل آتی اور ناگہاں رات کی اندھیری ابل پڑتی فطرت نے رات اور دن کے ظہور کو اس طرح تدریجی بنا دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے رات آہستہ آہستہ دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن درجہ بدرجہ رات پر لٹتا آتا ہے : ” خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ بِالْحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لأجَلٍ مُسَمًّی: اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس نے رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے کا ایسا انتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹتا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے (ایک خاص انتظام کے ماتحت) مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ و وقت تک کے لیے حرکت میں ہیں“۔ (الزمر :5) قرآن اسی تدریجی رفتار عمل کو فائدہ اٹھانے کا موقع دینے، ڈھیل دینے، عفو و درگزر کرنے، اور ایک خاص مدت کی فرصت حیات بخشنے سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ کائنات ہستی میں فضل و رحمت کی مشیت کام کر رہی ہے ور وہ چاہتے ہے ہر غلطی کو درستگی کے لیے، ہر نقصان کو تلافی کے لیے ہر لغزش کو سنبھل جانے کے لیے، زیادہ سے زیادہ مہلت اصلاح ملتی رہے اور اس کا دروازہ کسی پر بند نہ ہو۔ تاخیر اجل : وہ کہتا ہے : اگر تدریج و امہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تو دنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھا سکتا۔ ہر غلطی، ہر کمزوری، ہر نقصان ہر فساد، اچانک بیک دفعہ بربادی وہلاکت کا باعث ہوجاتا۔ ” وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَی ظَہْرِہَا مِنْ دَابَّۃٍ وَلَکِنْ یُؤَخِّرُہُمْ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ کَانَ بِعِبَادِہِ بَصِیرًا : اور انسان جو کچھ اپنے اعمال سے کمائی کرتا ہے اگر اللہ اس پر (فورا) مواخذہ کرتا تو یقین کرو زمین کی سطرح پر ایک جاندار بھی باقی نہ رہتا لیکن ( یہ اس کی رحمت ہے کہ) اس نے ایک مقررہ وقت تک فرصت حیات دے رکھی ہے۔ البتہ جب وہ مقررہ وقت آجائے گا تو پھر (یاد رہے کہ) اللہ اپنے بندوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ اس کی آنکھیں ہر وقت اور ہر حال میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں“۔ (فاطر :45) تدریج و امہال اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے : قدرتی طور پر یہ ڈھیل اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے۔ اچھائی کے لیے اس لیے تاکہ زیادہ نشوونما پائے۔ بڑائی کے لیے اس لیے تاکہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کا سامان کرلے : ” کلا نمد ھؤلاء وھؤلاء من عطاء ربک و ما کان عطاء ربک محظورا : ان لوگوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی ( یعنی اچھوں کو بھی اور بروں کو بھی) سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش میں سے حصہ مل رہا ہے اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں“ (17:، 20)۔ اگر قوانین فطرت کی ان مہلت بخشیوں سے فائدہ اٹھا کر نقصان و فساد کی اصلاح کرلی جائے۔ مثلاً تم نے بد پرہیزی کی تھی۔ اسے ترک کردو تو پھر اسی فطرت کا یہ بھی قانون ہے کہ اصلاح و تلافی کی ہر کوشش قبول کرلیتی ہے اور نقصان و فساد کے جو نتائج نشوونما پانے لگے تھے ان کا مزید نشوونما فوراً رک جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اصلاح بروقت اور ٹھیک ٹھیک کی گئی ہے تو پچھلے مضر اثرات بھی محو ہوجائیں گے اور اس طرح محو ہوجائیں گے گویا کوئی خرابی پیش ہی نہیں آئی تھی۔ لیکن اگر فطرت کی تمام مہلت بخشیاں رائگاں گئیں۔ اس کا بار بار اور درجہ بدرجہ انذار بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کرسکا تو پھر بلاشبہ وہ آخری حد نمودار ہوجاتی ہے جہاں پہنچ کر فطرت کا آخری فیصلہ صادر ہوجاتا ہے۔ اور پھر جب اس کا فیصلہ صادر ہوجائے تو نہ تو اس میں چشم زدن کی تاخیر ہوسکتی ہے نہ کسی حال میں بھی تزلزل اور تبدیلی۔ ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون : پھر جب ان کا مقررہ و قت آگیا تو اس سے نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں، اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں“۔ یعنی نہ تو اس کے نفاذ میں تاخیر ہوسکتی ہے نہ تقدیم۔ ٹھیک ٹھیک اپنے وقت میں اسے ہوجانا ہے۔ تسکین حیات : زندگی کی محنتیں اور کاوشیں : ہم دیکھتے ہیں انسان کی معیشت قیام و بقا کی جدو جہد اور کشاکش کا نام ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کا ہر گوشہ طرح طرح کی محنتوں اور کاوشوں سے گھرا ہوا ہے اور بہ حیثیت مجموعی زندگی اضطراری ذمہ داریوں کا بوجھ اور مسلسل مشقتوں کی آزمائش ہے۔ ” لقد خلقنا الانسان فی کبد : بلاشبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا ہے کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے“ (البلد : 4) مشغولیت اور انہماک : لیکن بایں ہمہ فطرت نے کارخانہ معیشت کا ڈھنگ کچھ اس طرح کا بنا دیا ہے اور طبیعتوں میں کچھ اس طرح کی خواہشیں، ولولے، اور انفعالات ودیعت کردیے ہیں کہ زندگی کے ہر گوشے میں ایک عجیب طرح کی دل بستگی، مشغولیت، ہماہمی اور سرگرمی پیدا ہوگئی ہے اور یہی زندگی کا انہماک ہے جس کی وجہ سے ہر ذی حیات نہ صرف زندگی کی مشقتیں برداشت کر رہا ہے بلکہ انہی مشقتوں میں زندگی کی بڑی سے بڑی لذت و راحت محسوس کرتا ہے۔ یہ مشقتیں جس قدر زیادہ ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ زندگی کی دلچسپی اور محبوبیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کی زندگی ان مشقتوں سے خالی ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ زندگی کی ساری لذتوں سے محروم ہوگیا اور اب زندہ رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہے ! حالات متفاوت ہیں، لیکن زندگی کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے ہے : پھر دیکھو ! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ حالات متفاوت ہیں، طبائع متنوع ہیں، اشغال مختلف ہیں، اغراض متضاد ہیں، لیکن معیشت کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے یکساں ہے اور سب ایک ہی طرح اس کی مشغولیتوں کے لیے جوش و طلب رکھتے ہیں۔ مرد و عورت، طفل و جوان، امیر و فقیر، عالم وجاہل، قوی و ضعیف، تندرست و بیمار، مجرد و متاہل، حاملہ و مرضعہ، سب اپنی اپنی حالتوں میں منہمک ہیں اور کوئی نہیں جس کے لیے زندگی کی کاوشوں میں محویت نہ ہو۔ امیر اپنے محل کے عیش و نشاط میں اور فقیر اپنی بے سرو سامانیوں کی فاقہ مستی میں زندگی بسر کرتا ہے لیکن دونوں کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں دل بستگی ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون زیادہ مشغول ہے۔ ایک تاجر جس انہماک کے ساتھ اپنی لاکھوں روپیہ کی آمدنی کا حساب کرتا ہے اسی طرح ایک مزدور بھی دن بھر کی محنت کے چند پیسے گن لیا کرتا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طور پر زندگی محبوب ہوتی ہے۔ ایک حکیم کو دیکھو جو اپنے علم و دانش کی کاوشوں میں غرق ہے اور ایک دہقان کو دیکھو جو دوپہر کی دھوپ میں برہنہ سر ہل جوت رہا ہے اور پھر بتلاؤ کس کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں زیادہ دل بستگی ہے؟ پھر دیکھو ! بچے کی پیدائش ماں کے لیے کسی جانکاہی و مصیبت ہوتی ہے؟ اس کی پرورش و نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا طول طویل سلسلہ ہے؟ تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہشوں اور جذبوں کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرور اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کا سب سے بڑا دکھ سہے گی اور پھر اسی دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی ! وہ جب اپنی معیشت کی ساری راحتیں قربان کردیتی ہے اور اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ زندگی کے سب سے بڑے احساس مسرت سے معمور ہوجاتا ہے۔ پھر کاروبار فطرت کے یہ تصرفات دیکھو کہ کس طرح نوع انسانی کے منتشر افراد اجتماعی زندگی کے بندھنوں سے باہم دگر مربوط کردیے گئے ہیں؟ اور کس طرح صلہ رحمی کے رشتہ نے ہر فرد کو سینکڑوں ہزاروں افراد کے ساتھ جوڑ رکھا ہے؟ فرض کرو زندگی و معیشت ان تمام مؤثرات سے خالی ہوتی۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ خالی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے کہ فطرت کائنات میں رحمت کار فرما ہے اور رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ معیشت کی مشقتوں کو خوشگوار بنا دے اور زندگی کے لیے تسکین و راحت کا سامان پیدا کردے۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت، الم میں لذت، اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اشیاء و مناظر کا اختلاف و تنوع اور تسکین حیات : چنانچہ قرآن نے تسکین حیات کے مختلف پہلووں پر جا بجا توجہ دلائی ہے۔ ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر و اشیا کا اختلاف و تنوع ہے۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی و تنوع میں خوشگواری و کیفیت محسوس کرتی ہے۔ پس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی و یک رنگی ہی ہوتی تو یہ دلچسپی اور خوشگواری پیدا نہ ہوسکتی جو اس کے ہر گوشہ میں ہمیں نظر آرہی ہے۔ اوقات کا اختلاف، موسموں کا اختلاف، خشکی و تری کا اختلاف، مناظر طبیعت اور اشیائے خلقت کا اختلاف جہاں بے شمار مصلحتیں اور فوائد رکھتا ہے وہاں ایک بڑی مصلحت دنیا کی زیب و زینت اور معیشت کی تسکین و راحت بھی ہے : گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں میں ہے زیب اختلاف سے اختلاف لیل ونہار : چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الٰہی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمد و شد کی دو مختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے، زندگی کے لیے بڑی ہی تسکین و دل بستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور وقت ہمیشہ ایک ہی حالت پر برقرار رہتا تو دنیا میں زندہ رہنا دشوار ہواجتا۔ اگر تم قطبین کے اطراف میں جاؤ جہاں روز و شب کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ اختلاف گزران حیات کے لیے کیسی عظیم الشان نعمت ہے : ” ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنہار لایات لاولی الباب : بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب دانش کے لیے (حکمت الٰہی) کی بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (آل عمران :190)۔ رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ دن کی روشنی جدو جہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے۔ رات کی تاریکی راحت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے۔ ہر دن کی محنت کے بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی سرگرمی۔ ” ومن رحمتہ جعل لکم الیل والنہار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون : اور (دیکھو) یہ اس کی رحإت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن (الگ الگ) ٹھہرا دیے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو ( یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم رہو) “ (28:، 73)۔ دن کی مختلف حالتیں اور رات کی مختلف منزلیں : پھر رات اور دن کا اختلاف صرف رات اور دن ہی کا اختلاف نہیں ہے بلکہ ہر دن مختلف حالتوں سے گذرتا اور ہر رات مختلف منزلیں طے کرتی ہے۔ ہر حالت ایک خاص طرح کی تاثیر رکھتی ہے اور ہر منزل کے لیے ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے۔ اوقات کا یہ روزانہ اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے، اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تدبل و تجدد کی لذت اور سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ” فسبحان اللہ حین تمسون و حین تصبحون۔ ولہ الحمد فی السموات والارض و عشیا و حین تظہرون : پس پاکی ہے اللہ کے لیے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے ستائش ہے جبکہ تم پر شام آتی ہے جب تم پر صبح ہوتی ہے جب دن کا آخری وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے“ (روم : 16) حیوانات کا اختلاف : اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے۔ فطرت نے کس طرح، طرح طرح کے اختلافات سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کردی ہے؟ ” ومن الناس والدواب والانعام مختلف الوانہ : اور انسان، جانور، چارپائے طرح طرح کی رنگتوں کے“ نباتات : عالم نباتات کو دیکھو۔ درختوں کے مختلف ڈیل ڈول ہیں، مختلف رنگتیں ہیں، مختلف خوشبوئیں ہیں، مختلف خواص ہیں، اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں۔ ” اولم یروا الی الارض کم انبتنا فیہا من کل زوج کریم : کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات کی ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے (بے شمار) درخت پیدا کردیے ہیں“ (26:، 7)۔ ” وما ذرا لکم فی الارض مختلفا الوانہ ان فی ذلک لایات لقوم یذکرون : اور (دیکھو) اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لیے زمین میں پھیلا دی ہے سو اس میں بھی عبرت پذیر طبیعتوں کے لیے (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے“ (16:13)۔ ” وھو الذی انشا جنات معروشات و غیر معروشت والنخل والزرع مختلفا اکلہ : اور وہ (حکیم و قدیر) جس نے (طرح طرح کے) باغ پیدا کردیے۔ ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور (طرح طرح کی) کھیتیاں جن کے دانے اور پھل کھانے میں مختلف ذائقہ رکھتے ہیں“۔ جمادات : حیوانات اور نباتات ہی پر موقوف نہیں جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے : ” ومن الجبال جدد بیض و حمر مختلف الوانہا وغرابیب سود : اور پہاڑوں کو دیکھو۔ گوناگوں رنگتوں کے ہیں۔ کچھ سفید، کچھ سرخ کچھ کالے کلوٹے“۔ ہر چیز کے دو دو ہونے کا قانون : اسی قانون اختلاف کا ایک گوشہ وہ بھی ہے جسے قرآن نے ” تزویج“ سے تعبیر کیا ہے اور ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے یا متقابل و متماثل ہونے کا قانون۔ کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی مثنی بھی ضرور رکھتی ہے۔ رات کے لیے دن ہے، صبح کے لیے شام ہے، نر کے لیے مادہ ہے، مرد کے لیے عورت ہے، زندگی کے لیے موت ہے۔ قرآن حکیم نے آخرت کے وجود کا جن جن دلائل سے اذعان پیدا کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یا مثنی ضرور رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے بھی کوئی متقابل اور مثنی زندگی ہو۔ دنیوی زندگی کی متقابل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ چنانچہ بعض سورتوں میں انہی متقابل مظاہرات سے استشہاد کیا ہے۔ مثلا سورۃ والشمس میں فرمایا : وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا (١) وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاہَا (٢) وَالنَّہَارِ إِذَا جَلاہَا (٣) وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا (٤) وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاہَا (٥) وَالأرْضِ وَمَا طَحَاہَا (٦)۔ ” ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون : اور ہر چیز میں ہم نے جوڑے پیدا کردیے (یعنی دو دو اور متقابل اشیا پیدا کیں“۔ ” سبحان الذی خلق الازواج کلہا مما تنبت الارض و من انفسہم ومما لا یعلمون : پاکی اور بزرگی ہے اس ذات کے لیے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں۔ مرد اور عورت : یہی قانون فطرت ہے جس نے انسان کو دو مختلف جنسوں یعنی مرد اور عورت میں تقسیم کردیا اور پھر ان میں فعل و انفعال اور جذب وا نجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کردیے کہ ہر جنس دوسری سے ملنے کی قدرتی طلب رکھتی ہے اور دونوں کے ملنے سے ازدواجی زندگی کی ایک کامل معیشت پیدا ہوجاتی ہے۔ ” فاطر السموات والارض جعل لکم من انفسکم ازواجا و من الانعام ازواجا : وہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا۔ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) اسی طرح چارپایوں میں بھی جوڑے پیدا کردیے“ (الشوری :11) قرآن کہتا ہے : یہ اس لیے ہے تاکہ محبت اور کون ہو اور دو ہستیوں کی باہمی رفاقت اور اشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل اور گوارا ہوجائیں۔ ” وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ : اور (دیکھو) اس کی (رحمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کردیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) تاکہ اس کی وجہ سے تمہیں سکون حاصل ہو اور ( پھر اس کی یہ کارفرمائی دیکھو کہ) تمہارے درمیان (یعنی مرد اور عورت کے درمیان) محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کردیا۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غو و فکر کرنے والے ہیں اس میں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ نسب اور صہر : پھر اسی ازدواجی زندگی سے توالد و تناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا ہے کہ ہر وجود پیا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے۔ ایک طرف وہ نسب کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے۔ دوسری طرف صہر یعنی دامادی کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کردیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرہ کی کثرت میں پھیل گئی ہے اور رشتوں، قرابتوں کا ایسا وسیع حلقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مربوط ہے۔ ” وھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصہرا : اور وہی (حکیم و قدیر) ہے جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے) انسان کو پیدا کیا پھر ( اسی رشتہ پیدائس کے ذریعہ) اسے نسب اور صہر کا رشتہ رکھنے والا بنا دیا۔ صلہ رحمی اور خاندانی حلقہ کی تشکیل : اور پھر دیکھو اس نسب اور صہر کے رشتے سے کس طرح خاندان اور قبیلہ کا نظام قائم ہوگیا ہے اور کس عجیب و غریب طریقہ سے صلہ رحمی یعنی قراب داری کی گیرائیاں ایک وجود کو دوسرے وجود سے جوڑتیں اور معاشرتی زندگی کی باہمی الفتوں اور معاونتوں کے لیے محرک ہوتی ہیں؟ در اصل انسان کی اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ اسی صلہ رحمی کے سر رشتہ نے قائم کر رکھا ہے ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالا کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا : اے افراد نسل انسانی ! اپنے پروردگار کی نافرمانی سے بچو ( اور اس کے ٹھہرائے ہوئے رشتوں سے بے پروا نہ ہوجاؤ) وہ پروردگار جس نے تمہیں ایک فرد واحد سے پیدا کیا ( یعبی باپ سے پیدا کیا) اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کردیا (یعنی جس طرح ہر مرد کی نسل سے لڑکا پیدا ہوا لڑکی بھی پیدا ہوئی) پھر ان کی نسل سے ایک بڑی تعداد مرد اور عورت کی پیدا ہو کر پھیل گئی ( اس طرح فرد واحد کے رشتہ نے ایک بڑے خاندان اور قبیلہ کی صورت پیدا کرلی) پس اللہ کی نافرمانی سے بچو جس کے نام پر باہم دگر (مہر و شفقت کا) سوال کرتے ہو اور صلہ رحمی کے توڑنے سے بھی بچو (جس کے نام پر باہم دگر ایک دوسرے سے چشم داشت اعانت رکھتے ہو) بلاشبہ اللہ تمہارا نگران حال ہے۔ ” اللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا وجعل لکم من ازواجکم بنین و حفدۃ: اور (دیکھو) یہ اللہ ہے جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑا بنا دیا (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) پھر تمہارے باہمی ازدواج سے بیٹوں اور پوتوں کا سلسلہ قائم کردیا“ (النحل : 27) ایام حیات کا تغیر و تنوع : اسی طرح ایام حیات کے تغیر و تنوع میں بھی تسکین حیات کی ایک بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے۔ ہر زندگی طفولیت، شباب، جوانی، کہولت، اور بڑھاپے کی مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور ہر منزل اپنے نئے نئے احساسات اور نئی نئی مشغولیتیں اور نئی نئی کاوشیں رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی عالم ہستی کی ایک دلچسپ مسافرت بن گئی۔ ایک منزل کی کیفیتوں سے ابھی جی سیر نہیں ہو چکتا کہ دوسری منزل نمودار ہوجاتی ہے اور اس طرح عرصہ حیات کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ”ہُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُونُوا شُیُوخًا وَمِنْکُمْ مَنْ یُتَوَفَّی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلا مُسَمًّی وَلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ : وہ (پروردگار) جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکلتے ہو پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو۔ اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے تاکہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی تو ان منزلوں سے پہلے ہی مر جاتا ہے کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے۔ زینت و تفاخر، مال و متاع، آل و اولاد : اسی طرح، طرح طرح کی خواہشیں اور جذبے، زینت و تفاخر کے ولولے، مال و متاع کی محبت، آل و اولاد کی دلبستگیاں زندگی کی دلچسپی اور انہماک کے لیے پیدا کردی گئی ہیں۔ ” زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآبِ : انسان کے لیے مرد و عورت کے تعلق میں، اولاد میں، چاندی سونے کے اندوختوں میں، چنے ہوئے گھوڑوں میں، مویشیوں میں، اور کھتی باڑی میں دل بستگی پیدا کردی گئی ہے اور یہ جو کچھ بھی ہے دنیوی زندگی کی پونجی ہے۔ بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے“ (آل عمران :14) اختلاف معیشت اور تزاحم حیات : اسی طرح معیشت کا اختلاف اور اس کی وجہ سے مختلف درجوں اور حالتوں کا پیدا ہوجانا بھی انہماک حیات کا ایک بہت بڑا محرک ہے کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں مزاحمت اور مسابقت کی حالت پیدا ہوگئی ہے اور اس میں لگے رہنے سے زندگی کی مشقتوں کا جھیلنا آسان ہوگیا ہے۔ بلکہ یہی مشقتیں سرتا سر راحت و سرور کا سامان بن گئی ہیں۔ ” وَہُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلائِفَ الأرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ : اور یہ اسی (حکیم و قدیر) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں (پچھلوں کا) جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر، درجوں میں فوقیت دے دی تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہارے عمل کی آزمائش کرے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار (پاداش عمل کی) سزا دینے میں تیز ہے۔ (یعنی اس کا قانون مکافات نتائج عمل میں سست رفتار نہیں) لیکن ساتھ ہی بخش دینے والا، رحمت رکھنے والا بھی ہے“ (الانعام :165) برہان فضل و رحمت : چنانچہ یہی وجہ کہ جس طرح قرآن نے ربوبیت کے اعمال و مظاہر سے استدلال کیا ہے اسی طرح وہ رحمت کے آثار و حقائق سے بھی جا بجا استدلال کرتا ہے اور برہان ربوبیت کی طرح برہان فضل و رحمت بھی اس کی دعوت و ارشاد کا ایک عام اسلوب خطاب ہے۔ وہ کہتا ہے : کائنات کی ہر شے میں ایک مقررہ نظام کے ساتھ رحمت و فضل کے مظاہر کا موجود ہونا قدرتی طور پر انسان کو یقین دلا دیتا ہے کہ ایک رحمت رکھنے والی ہستی کی کارفرمائیاں یہاں کام کر رہی ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ تمام مقامات جن میں کائناتِ خلقت کے افادہ و فیضان، زینت وجمال، موزونیت و اعتدلال، تسویہ و قوام، اور تکمیل و اتقان کا ذکر کیا گیا ہے، در اصل اسی استدلال پر مبنی ہیں : (اس آیت کی بقیہ تفسیر کے لیے ملاحظہ اگلی آیت )