الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا
وہ ذات کہ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔
تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الفرقان میں دوسری مکی سورتوں کی طرح توحید ورسالت اور معاد کے ثبوت پر زور دیا گیا ہے اور ضمنا شرک کی نفی کی گئی ہے مخالفین کو انجام بد سے ڈرایا گیا ہے اور تاریخی شہادتیں پیش کرکے بتایا گیا ہے کہ جن قوموں نے بھی اپنے رسول کی مخالفت کی وہ انجام کار ہلاک کردی گئیں لہذا مشرکین قریش اور مخالفین اسلام کو چاہے کہ ان قصوں سے عبرت حاصل کریں اور اپنے پیغمبر کی مخالفت ترک کردیں ورنہ ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو پہلی امتوں کا ہوا ہے۔ سورۃ الفرقان بھی مکی ہے اور اس کا زمانہ نزول مکی زندگی کا وسطی دور ہے جبکہ مشرکین کی مخالفت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ لوگوں کواسلامی تحریک سے روکنے کے لیے الزام تراشیوں پر اتر آئے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا بھی زور شور سے شروع کردیا تھا اس بنا اس خطاب کار زیادہ تر تعلق ان اعتراضات وشبہات سے ہے جو اس دور کی مکی سورتوں میں مختلف اسالیب سے مذکور ہیں چنانچہ ان کاسب سے پہلا اعتراض وحی الٰہی پر تھا کہ قرآن وحی الٰہی نہیں ہے بلکہ تصنیف بندہ ہے اور کچھ دوسرے لوگ اس سازش میں ان کے شریک کار ہیں، اس کے جواب میں قرآن نے مختلف صورتوں میں تحدی کی ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو تم سب فصحاء وبلغاء مل کر ایسا کلام پیش کردکھاؤ۔ اس سورت میں قرآن کو الفرقان، کے خاص نام سے یاد کیا ہے کیونکہ نزول قرآن سے قبل دنیا کفر وشرک کی تاریکیوں میں گم تھی اور حق وباطل کا امتیاز ختم ہوچکا تھا، سو لوگوں کی ہدایت کے لیے ایسی کتاب نازل کی جس نے حق وباطل کے درمیان واضح خطوط قائم کردیے اور کفر وشرک کی وجہ سے جو وبال آنے والا تھا اس سے دنیائے جہان کو آگاہ کردیا، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت کا نتیجہ ہے اس لیے سورۃ کی ابتداء، تبارک الذی، سے کی، سورۃ کی ابتدائمیں توحید باری تعالیٰ پر استدلال ہے، اور پھر نبوت پر ان کے شبہات کے جوابات دیے ہیں اور معاد کو ثابت کیا ہے۔ نزول قرآن کی شان : ہر سال حج کاموسم آتا ہے تولاکھوں انسانوں کے اندر سے اسوہ خلیل اللہ جلوہ نما ہوتا ہے یہ تو اسوہ ابراہیمی کی یادگار تھی لیکن جب وہ آیا جس کے لیے خود ابراہیم خلیل نے خداوند کریم کے حضور التجا کی تھی تودنیا کے لیے اسوہ محمدی کی حقیقت الحقائق کی اعلی رونمائی ہوئی اور ہدایت وسعادت کی تمام (دیگر) حقیقتیں بے اثر ہوگئیں۔ اس اسوہ عظیمہ کاسب سے پہلا منظر وہ عالم ملکوتی کا استغراق تھا جب کہ صاحب فرقان نے انسانوں کو ترک کرکے خدا کی صحبت اختیار کرلی تھی اور انسان کے بنائے گھروں کوچھوڑ کر غار حرا کے غیر مصنوع حجرے میں عزلت گزیں ہوگیا تھا، اس عالم میں متصل بھوکاپیاسا رہتا تھا اور پوری پوری راتیں جمال الٰہی کے نظارے میں بسر کردیتا تھا، تاآنکہ اس تنگ وتاریک غار کی اندھیاری میں طلیعہ قرآنی کانور بے کیف طلوع ہوا اور مشرقستان الوہیت سے نکل کر اس کے قلب مقدس میں غروب ہوگیا۔ وہ بھوکا پیاسا رہتا تھا پس تمام مومنوں کو حکم دیا گیا کہ تم بھی ان ایام (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) میں بھوکے پیاسے رہو تاکہ ان برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ جونزول قرآنی کے ایام اللہ کے لیے مخصوص ہیں وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک تنہا گوشے میں خلوت نشین تھا، پس ایسا ہوا کہ ہزاروں مومن وقانت روحیں ماہ مقدس میں اعتکاف کے لیے مسجد نشین ہونے لگیں۔ اس طرح غار حرا کے اعتکاف کی یاد ہر سال تازہ ہونے لگی، وہ راتوں کو حضور الٰہی میں مشغول عبادت رہتا تھا، پس پیروان اسوہ محمدیہ اور متبعین سنت احمدیہ یہ بھی رمضان المبارک کی راتوں میں قیام لیل کرنے لگے۔