يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لازم ہے کہ تم سے اجازت طلب کریں وہ لوگ جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوئے اور وہ بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہیں پہنچے، تین بار، فجر کی نماز سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین تمھارے لیے پردے (کے وقت) ہیں، ان کے بعد نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر۔ تم پر کثرت سے چکر لگانے والے ہیں، تمھارے بعض بعض پر۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
(٤٣)۔ اثنائے کلام میں ضمنا مثالیں بیان کرکے ایمان وکفر کی حقیقت سمجھانے کے بعد اب یہاں سے پھر احکام معاشرت کاسلسلہ شروع ہورہا ہے گذشتہ آیات میں حجاب کے سلسلہ میں اجانب یعنی غیر محارم کو پابند کیا گیا تھا کہ بغیر سلام اور اہل خانہ کی رضامندی حاصل کیے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونا ممنوع ہے، اب یہاں سے ان لوگوں کے احکام بیان ہورہے ہیں جوگومحارم سے تو نہیں ہیں تاہم وہ اہل خانہ کے ساتھ متصل رہتے ہیں اور قضائے حوائج میں ممد اور معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، تخلیہ کے تین اوقات بیان کیے ہیں اور ان وقات ثلاثہ کو عورتات سے تعبیر فرمایا ہے۔ جوعورت کی جمع ہے، عربی زبان میں، عورت، کے معنی خلل اور خطرہ کی جگہ کے ہیں، نیز عورت کا لفظ اعضاء کے ان حصوں پربھی بولا جاتا ہے جن کا کھل جانا باعث شرم اور ناگوار ہوتا ہے لہذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان اوقات ثلاثہ میں تم لوگ چونکہ ایسی حالت میں ہوتے ہو کہ بچوں اور خدام کابلا اجازت تمہارے پاس آجانا مناسب نہیں لیکن ان تین اوقات کے علاوہ وہ بلا اجازت آسکتے ہیں۔ مولانا آزاد آیت نمبر ٥٨ کے تحت لکھتے ہیں ! آیت ٢٧ میں استیذان کا حکم دیا تھا، یعنی جب کسی کے یہاں جاؤ تو اجازت لے کر مکان میں داخل ہو، یہاں اس امر پر توجہ دلائی ہے کہ خود اپنے گھر کے اندر بھی ایک دوسرے کے کمرے میں جاتے ہوئے استیذان ضروری ہے تشریح اس کی آخر میں ملے گی۔