سورة النور - آیت 33

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لازم ہے کہ حرام سے بہت بچیں وہ لوگ جو کوئی نکاح نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور وہ لوگ جو مکاتبت ( آزادی کی تحریر) طلب کرتے ہیں، ان میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں تو ان سے مکاتبت کرلو، اگر ان میں کچھ بھلائی معلوم کرو اور انھیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمھیں دیا ہے، اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں، تاکہ تم دنیا کی زندگی کا سامان طلب کرو اور جو انھیں مجبور کرے گا تو یقیناً اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٢١) آیت ٣٣ میں ایک بہت بڑے انسانی حقوق کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے جو عالمی برداری میں آئینی حیثیت اختیار کرچکا تھا یعنی غلاموں کی آزادی اور اس کو معادرے میں مساوی حقوق دلانے کے لیے پہلا قدم کہ جو غلام، ہنر مندہوں اور محنت کرکے آسان قسطوں پر اپنی قیمت ادا کرسکتے ہوں ان کو رہا کردیا جائے اور مقررہ قسطوں پر ان سے قیمت وصول کرلی جائے عربی میں اس شرط پر رہائی کا مکاتب کہا جاتا ہے قرآن نے غلاموں کی رہائی کے لیے تدریجی قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس وقت معاشی اور معاشرتی نظام ان غلاموں پر چل رہا تھا، لہذا اگر یکدکم حقوق ملکیت ساقط کردیے جاتے تو معیشت تباہ ہوجاتی اس ترغیب وتلقین سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ طوعا وکرہا غلاموں کو آزاد کردیں چنانچہ صحابہ پر اس خلاق تلقین کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ لوگ کثرت سے غلام آزاد کرنے لگ گئے اور خلفائے راشدین کے زمانہ اختتام تک تقریبا تمام موجود غلام رہا ہوچکے تھے اور آئندہ کے لیے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی صرف اس صورت میں اجازت دی کہ ان کی حکومت قیدیوں کاتبادلہ نہ کرے یا معاوضہ ادا کرکے انکو چھڑانے پر راضی نہ ہوں لیکن ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں ان کو اس قدر سہولتیں دی گئیں کہ سوسائٹی میں ان کے حقوق محفوظ کردیے گئے جن کی تفصیلات کتب احادیث میں مذکور ہیں اور محدثین نے غلاموں کے احکام بیان کرنے کے لیے اپنی کتابوں میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں جو تدریجا غلاموں کے متعلق اسلامی آئین میں ترمیم پر منتج ہوتے ہیں، مولانا آزاد اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : اگر غلام اور آقا میں اس طرح کا سمجھوتا ہوجاتا تھا کہ غلام محنت مزدوری کرکے یا کسی دوسرے ذریعہ سے ایک خاص رقم آقا کو ادا کردے گا اور اس کے معاوضہ میں وہ اسے آزاد کردے گا تو اسے مکاتبہ کہتے تھے یعنی آپس میں آزادی کانوشتہ ہوگیا، قرآن مجید نے غلامی کی رسم مٹانے کے لیے جو تدریجی اصلاحات شروع کی تھیں ان میں ایک اصلاح یہ بھی تھی کہ مکاتب کی درخواست منظور کرلینے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہاں آیت ٣٣ میں ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا اور فرمایا نہ صرف ان کی درخواست منظور کرلینا چاہیے بلکہ اس کے لیے انہیں مالی امداد بھی دینی چاہیے کہ مال کو، مال اللہ، کہہ کر یہ حقیقت یاد دلادی کہ مال جو کچھ ہے اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس اس میں اس کے بندوں کا بھی حق ہے۔ کلدانیوں، ہندؤں اور رومیوں کی طرح عربوں میں بھی یہ طریقہ عام تھا کہ لونڈیوں سے پیشہ کراتے تھے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے آیت ٣٣ میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اس فساد کا بلکل انسداد ہوجائے۔