وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
(١٩)۔ آیت میں، ایامی، کا لفظ ہے۔ عربی میں، ایم، کا اطلاق ایسی عورت پر ہوتا ہے جس کا شوہر نہ ہو، خواہ باکرہ ہو خواہ بیوہ ہو اور مطلقہ قال، ابوعمرو والکسائی، اتفق اھل الغۃ علی ان الایم فی الاصل ھی المراۃ التی لازوج لھا بکر اکانت اوثیبا۔ وقال ابوعبید، یقال، رجل ایم والمرۃ ایم، واکثر مایکون فی النساء وھو کالمستعار فی الرجال، ومنہ قول امیہ بن ابی صلت۔ للہ دربنی علی، ایم منھم وناکح۔ (دیوان امیہ بن ابی الصلت فی فحول الشعرا، ص ٢٢) اردو کے مترجموں نے اس کاترجمہ بیوہ عورتیں کیا ہے۔ یہ بلاوجہ عام کو خاص بنادینا ہے۔ (٢٠) تجرد کی زندگی سے جو معاشرتی خرابیاں اور ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا سدباب کرنے کے لیے قرآن نے ازدواجی زندگی پر زور دیا ہے بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کردینے پربھی ترغیب دی ہے بشرطیکہ ان میں ازدواجی زندگی کے نباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو، ایک صالح معاشرے کے لیے یہ بات زیب نہیں دیتی کہ آمدنی کی کمی کی وجہ سے ازدواجی زندگی سے دل چرائیں کیونکہ ازدواجی زندگی بہت سی برکات پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات میاں بیوی کی مشترکہ کوششیں ایک خاندان میں خوشحالی کاموجب بن جاتی ہیں اور برے حالات اچھے حالات میں تبدیل ہوجاتے ہیں لہذا فضل الٰہی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر مجرد شخص کو چاہیے کہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں کو قبول کرے، بہت سی احادیث میں نکاح کرلینے کی ترغیب آئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، نوجوانو تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہے اسے بلاپس وپیش کرلینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بدنظری سے بچانے اور باعفت زندگی بسر کرنے کاموجب بنتی ہے اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا تین آدمیوں کی اللہ ضرور مدد کرتا ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ مولاناآزاد رحمہ اللہ تعالیٰ آیت ٣٢ میں لکھتے ہیں، زنا کے سدباب کی کوئی کوشش سود مند نہیں ہوسکتی اگر وہ ان رکاوٹوں کو دور نہیں کردیتی جو نکاح کی راہ میں پیدا کردی گئی ہوں، یہ روکاٹیں دوراہوں سے آتی تھیں، مذہب کی راہ سے کہ لوگوں نے رہبانیت کو روحانی سعادت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا تھا اور مردوں کو جنسی خود پرستی ور ذاتی غرض مندی کی راہ سے متعدد حالتوں میں عورتوں کو نکاح سے باز رکھنا چاہتے تھے ازاں جملہ ایک حالت بیوگی کی تھی چنانچہ یہاں آیت ٣٢ میں خصوصیت کے ساتھ نکاح کے اہتمام کا حکم دیا اور فرمایا جو جو ان عورتیں بغیر شوہر کے ہوں خواہ باکرہ ہوں خواہ رانڈ انکا نکاح کردو بٹھائے رکھنے کے خواہش مند نہ ہو۔ ساتھ ہی لونڈی غلاموں کے نکاح کے اہتمام کا بھی حکم دیا عرب کے گھر گھر میں لونڈی غلام بسے ہوئے تھے قرآن یہ رسم مٹانی چاہتا تھا لیکن جو لوگ اس حالت میں مبتلا ہوچکے تھے ضروری تھا کہ پہلے ان کے حقوق ومصالح کی اہمیت کا عام اعتراف دلوں میں پیدا کردیا جائے یہی وجہ ہے کہ احکام ومواعظ میں ہر جگہ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔