لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
تم پر کوئی گناہ نہیں کہ ان گھروں میں داخل ہو جن میں رہائش نہیں کی گئی، جن میں تمھارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔
(١٦) آیت نمبر ٢٩ میں (فیھا متاع لکم) ہے اور متاع کا مطلب اردو فارسی کے تمام مترجموں نے مال واسباب ٹھہرایا ہے لیکن بات بنتی نہیں ذکر غیر آباد مکانوں کا ہے ایسی جگہوں میں کوئی اپنا مال اسباب رکھنے کیوں لگا اور اس کے لیے جانے کی ضرورت پیش کیوں آنے لگی؟ دراصل یہاں متاع، لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے جیسا کہ قرآن مجید نے ہر جگہ استعمال کیا ہے یعنی فائدہ اٹھانے اور متمع ہونے کے معنی میں ہیں مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر آباد مکان ہو اور تمہیں اس میں جانے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ اس حکم سے مستثنی ہے۔ قال العطاء المراد بھا الحرب التی یدخلھا الناس للبول والغائظ۔