يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انس معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
١٥) ابتدا سورۃ سے یہاں تک ان احکام وحدود کا بیان ہوا ہے جن سے معاشرہ میں پیدا شدہ برائیوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے اور اب یہاں آیت ٢٧ سے ان آداب واحکام کا بیان ہورہا ہے جن کی رعایت سے معاشرتی برائیوں کا سدباب ہوسکتا ہے گویاان احکام وآداب کی حیثیت واقعہ افک کے تتمہ کی ہے۔ استیناس دراصل اس انس کو کہتے ہیں جو ہم نشینی کے بعد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں پر اس کے معنی استیذان یعنی اجازت لینے کے ہیں اور آیت کے الفاظ میں تقد م وتاخر ہے (حتی تسلمواعلی اھلھا وتستاذنوا) یعنی جب تک کہ گھروالوں پر سلام کہنے کے بعد ان سے اجازت حاصل نہ کرو جاہلیت میں رواج یہ تھا کہ تحیہ وسلام کے بعد اجازت کا انتظار نہ کرتے اور اندر داخل ہوجاتے اس میں چونکہ بہت سی خرابیاں تھیں اس لیے قرآن نے پابندی لگادی کہ سلام کہنے کے بعد اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور حدیث میں ہے ایک مرتبہ سلام کہنے کے بعد جواب نہ آئے تو دوسری مرتبہ سلام کہو، پھر بھی جواب نہ آئے تو تیسری مرتبہ سلام کہو، اور اگر اس کے بعد بھی جواب نہ آئے تو واپس چلے جاؤ (اذا استاذن احدکم ثلاثا فلم یوذن لہ فلیرجع) اور یہ محاسن آداب سے ہے اور سلام کہنا تو حقوق مسلم میں داخل ہے اور ہاں زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا صاحب خانہ کو چیخ کر پکارنا خلاف ادب ہے۔ آیت نمبر ٢٧ سے سلسلہ بیان نے یہ رخ اختیار کیا ہے کہ معاشرتی زندگی کی شائستگی اور انضباط کے لیے چندبنیادی حدود ضروری ہیں وار ضروری ہے کہ لوگ سختی کے ساتھ ان کی پابندی کریں جو سوسائٹی ان حدود سے بے پروا ہوجائے گی وہ اخلاقی پاکیزگی کا اعلی معیار قائم نہیں رکھ سکے گی۔ ماقل سے ان احکام کاربط واضح ہے پہلے زنا کے جرم کی شناعت واضح کی، پھر اسی طرح بہتان تراشی کو سخت ترین جرم قرار دیا اب میل جول، آمدروفت اور مرد و عورت کے باہمی اختلاط کے ان احکام پر زور دیا ہے جن سے معاشرتی زندگی کی اخلاقی فضا زیادہ سے زیادہ پاکیزہ ہوجائے اور اسی طرح کے جرائم کو سراٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔