حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ
یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑیں گے اچانک وہ بلبلا رہے ہوں گے۔
آیت (٦٤) میں فرمایا : (حتی اذا اخذنا مترفیھم بالعذاب) جب ان میں سے خوش حال اور دولت مند لوگوں کو ہم نے مواخذہ میں پکڑا۔ نیز جابجا ان لوگوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو قوم کے دولت مند طبقہ میں سے ہوتے ہیں۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت (١٦) میں گزر چکا ہے : (امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا، فحق علیھا القول) اس سے معلوم ہوا انفرادی زندگی میں بدعملی کا بڑا مرکز دنیوی خوشحالی کی زندگی ہوجاتی ہے۔ اور ہمیشہ حق و صداقت کی مخالفت وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ سبب اس کا ظہار ہے خوش حالی و ثروت کی حالت ایک ایسی حالت ہے کہ اگر کسی جماعت میں پھیلی ہوئی ہو تو اس سے بڑھ کر کوئی برکت نہیں، اور اگر صرف چند افراد میں سمٹی ہوئی ہو تو اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، کیونکہ جب دولت صرف چند افرادہی کے قبضۃ میں آگئ باقی افراد جماعت محروم رہ گئے تو قدرتی طور پر ہر طرح کا غلبہ و تسلط چند افراد کے ہاتھ جائے گا۔ اور ایسے غلبہ وتسلط کا نتیجہ غرور باطل اور استکبار عن الحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جس جماعتی خوش حالی کو اللہ کا سب سے بڑا فضل قرار دیتا ہے اسی کو انفرادی حالت میں فتنہ اور متاع غرور بھی کہتا ہے چونکہ ہمارے مفسروں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی اس لیے یہ مقام واضح نہ ہوسکا۔ آج تمام دنیا میں شور مچ رہا ہے کہ انفرادی سرمایہ داری دنیا کے لیے مصیبت ہے، لیکن قرآن تیرہ سو برس پہلے اسے فتنہ قرار دے چکا اور اس کے لیے اکتناز کا لفظ بول چکا ہے۔ (الذین یکنزون الذھب والفضہ ولا ینفقونھا) مشکل یہ ہے کہ جب تک قرآن کی صدا ہے تمہاری نطر میں جچتی نہیں، جب وہی بات وقت کے ذہن و فکر کے حلقوں سے اٹھنے لگتی ہے، تو تم فورا اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔