وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارے اوپر سات راستے بنائے اور ہم کبھی مخلوق سے غافل نہیں۔
آیت (١٧) سے (٢٢) تک جن دلائل کونیہ پر توجہ دلائی ہے وہ برہان ربوبیت کا استدلال ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھو۔ آیت (١٧) میں فرمایا (خلقنا فوقکم سبع طرائق) طرائق کے صاف معنی عربی میں راہ کے ہیں لیکن چونکہ ہمارے مفسروں کے سامنے نظام بطلیموسی موجود تھا اور اس میں کواکب کی جگہ طبقات سماوی کی گردش تسلیم کی گئی تھی، اس لیے مجبھور ہوئے کہ کسی نہ کسی طرح اسے طبقات کے معنوں میں لے جائیں، مگر اب نظام بطلیموسی کا پورا کارخانہ ہی ملیا میٹ ہوگیا۔ سات بڑے ستاروں کا تعین انسانی علم کی نہایت قدیم معلومات میں سے ہے۔ اسی لیے قرآن جابجا ان کی سیر و گردش اور عجائب آفرینش پر توجہ دلاتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی خلقت پر اس لیے بھی زور دیا گیا ہے کہ تمام قدیم قوموں میں ان کی پرستش کا اعتقاد پیدا ہوگیا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ان کی مخلوقیت کے پہلو پر بار بار زور دیا جاتا۔