وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔
آیت (١٢) میں وہی بات کہی جو سورۃ حج میں گزر چکی ہے، یعنی انسان کی ابتدائی پیدائش کس چیز سے ہوئی؟ (سلالۃ من طین) ایک ایسے جوہر سے جو کیچڑ کا خلاصہ تھا۔ یعنی مرطوب مٹی مدتوں تک خمیر کی حالت میں رہی، پھر اس میں کوئی ایسی چیز پیدا ہوگئی جسے اس کا خلاصہ اور ست سمجھنا چاہیے۔ اسی خلاصہ سے زندگی کی اولین نمود ہوئی اور اسی سے بالآخر وجود انسانی متشکل ہوا۔ یہ تو پہلی پیدائش ہوئی اس کے بعد پیدائش کا سلسلہ کس طرح جاری ہوا؟ توالد و تناسل سے، چنانچہ پہلے نطفہ رحم مادر میں جگہ پکڑتا ہے، پھر اس پر نشو نما کے مختلف دور طاری ہوتے ہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں تشکیل جنین کے جو مراتب خمسہ بیان کیے ہیں گزشتہ زمانے میں ان کی پوری حقیقت واضھ نہیں ہوئی تھی، کیونکہ علم تشریح جنین (Embryology) بالکل ناقص حالت میں تھا، لیکن اب انیسیوں صدی کی تشریحی تحقیقات نے تمام پردے اٹھا دیے ہیں اور ان سے پوری طرح ان تطورات کی تصدیق ہوگئی ہے۔ خصوصا (ثم انشاناہ خلقا اخر) کی تفصیل اسی سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ انسان اگر غور کرے تو حقیقت کے دلائل و شواہد اسے تین راہوں سے گھیرے ہوئے ہیں۔ خود اس کی ہستی کا ہر گوشہ سرتا سر دلیل حقیقت ہے۔ یہ قرآن کی اصطلاح میں عالم انفس ہے، اس سے باہر جو کچھ ہے وہ بھی حقیقت کا پیام ہے۔ یہ عالم آفاق ہے پھر عالم آفاق کے دلائل کی بھی دو قسمیں ہوئیں۔ کائنات ہستی کی خلقت و قوانین کے مظاہر، یہ آیات کونیہ ہیں۔ اقوام ماضیہ کے احوال و تجارب، یہ براہین عملیہ ہیں۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ ان تمام اقسام سے استدلال کرتا اور ایک قسم کے دلائل کے بعد دوسری قسم کے دلائل لاتا ہے۔ اس سورت میں علی الترتیب تینوں قسموں کے دلائل جمع ہوگئے ہیں۔ آیت (١٢) سے (١٧) تک عالم آفاق کے دلائل کونیہ بیان کیے ہیں کہ اپنے نفس سے باہر کے عالم میں تفکر کرے۔ آیت (٢٣) سے (٥٣) تک گزشتہ دعوتوں کی سرگزشتوں سے استدلال کیا ہے کہ حوادث ماضیہ سے حال و مستقبل کے لیے عبرت پکڑے، اس کے بعد آخرت سورت تک جو کچھ بیان ہے وہ اسی سلسلہ استدلال کے قدرتی نتائج و عبر ہیں۔