سورة الحج - آیت 60

ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ اور جو شخص اس کی مثل بدلہ لے جو اسے تکلیف دی گئی، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرورہی اس کی مدد کرے گا، یقیناً اللہ ضرور نہایت درگزر کرنے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٦٠) سے (٦٢) تک تین آیتوں میں تین ذالک آئے ہیں۔ ان کا مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ (ذلک ومن عاقب بمثل ما عوقب بہ) یعنی اب صورت حال یہ ہے جو اوپر بیان کردی گئی ہے۔ اور ایسی حالت میں ضروری ہے کہ مظلوموں کو دفع ظلم و تشدید کا موقع دیا جائے۔ پس جو مظلوم مدتوں تک ستائے جانے کے بعد دفع کے لیے آمادہ ہوں گے اور سج طرح ان پر تلوار اٹھائی گئی ہے، ٹھیک اسی طرح خود بھی تلوار اٹھائیں گے اور پھر اس کی وجہ سے ظالم از سر نو ظلم و تعدی پر آمادہ ہوجائیں گے، تو وہ یقین رکھیں۔ اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا، کیونکہ وہ ظالم نہیں ہیں، ظلم کا دفاع کرنے والے ہیں۔ آخر میں کہا ( ان اللہ لعفو غفور) اللہ کی بخشش پر بھروسہ رکھیں۔ یعنی وہ جو قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں، وہ کتنی ہی مجبوری کی حالت میں اٹھایا ہو، مگر پھر قتل و خونریزی کا قدم ہے۔ لیکن چونکہ برائی کو دور کرنے کے لیے چھوٹی برائی اختیار کرلینی پڑتی ہے اس لیے وہ یقین رکھیں۔ اللہ درگزر کرنے والا بخش دینے والا ہے۔ (ذلک بان اللہ یولج الیل فی النھار) اور اللہ کی مدد کیوں ان کا ساتھ دے گی؟ اس لیے کہ قانون الہی یہی ہے کہ یہاں حالت پلٹتی رہے، وہ دن کے اندر سے رات کو ابھارتا اور رات کے اندر سے دن کو نمایاں کرتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ہی حالت سدا قائم رہے، پس ضروری ہے کہ تمہاری حالت میں بھی اب انقلاب ہو۔ (وان اللہ سمیع بصیر) نیز اس لیے کہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ یعنی یہاں اندھے بہرے قوانین کی حکومت کام نہیں کر رہی ہے جو نہ تو ظالموں کا ظلم دیکھتی ہو نہ مظلوموں کی فریاد سنتی ہو، بلکہ ایک سمیع و بصیر عدالت کی کارفرمائی ہے۔ پس ضروری ہے کہ دیکھا جائے اور سنا جائے۔ (ذلک بان اللہ ھو الحق) کیوں دیکھا جائے؟ کیوں سنا جائے؟ کیوں دیکھنے اور سننے کا نتیجہ یہی نکلے؟ اس لیے کہ حق اللہ ہی کی ہستی ہے اور یہ منکرین رسالت جنہیں پکار رہے ہیں وہ بطلن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پس ضروری ہے کہ حقیقت دیکھنے اور سنے اور بطلان اپنے بطلان کا ثبوت دے دے۔ (وان اللہ ھو العلی الکبیر) نیز اس لیے کہ رفعت و کبریائی اللہ ہی کے لیے ہے، پس ضروری ہے کہ اس کے کلمہ حق کی رفعت اور بڑائی آشکارا ہو کر رہے۔