سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ تجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٧) میں قوانین کائنات کی ایک بہت بڑٰ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے اس کی ساری اہمیت ضائع کردی۔ فرمایا یہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں، یعنی از راہ شرارت کہتے ہیں، اگر سچ مچ کو بد عملیوں کا برا نتیجہ پیش آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟ لیکن یہ نہیں جانتے کہ فطرت کائنات کی اوقات شماری کا وہو حساب نہیں جو دنیا میں لوگوں نے بنا رکھا ہے۔ اس کی گھڑی کا کانٹا بہت دیر میں چلتا ہے، تمہاری تقویم میں ہزار برس گزر جائیں تو اس کی تقویم کا بمشکل ایک دن گزرے، پس ظہور نتائج کا فیصلہ اپنی صبح و شام دیکھ کر نہ کرلیا کرو۔ ٹھہرو اور انتظار کرو، ایک دوسرے موقع پر ہزار برس کی جگہ پچاس ہزار برس کی بھی مدت فرمائی ہے۔ یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے۔ تشریح کے لیے سورۃ فاتحہ دیکھو۔