أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے لیے ایسے دل ہوں جن کے ساتھ وہ سمجھیں، یا کان ہوں جن کے ساتھ وہ سنیں۔ پس بے شک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
آیت (٤٦) نے انسان کے ذہنی تعطل اور قلبی غفلت کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے؟ فرمایا اگر فہم و بصیرت کی ساری دلیلیں ان کے لیے بے سود ہیں تو کیا آنکھوں کا مشاہدہ بھی کچھ کام نہیں دیتا؟ کیا انہوں نے زمین میں سیر و گردش نہیں کی، حوادث و انقلابات عالم کے نتائج نہیں دیکھے؟ کیا ان کے کان بہرے ہوگئے کہ سن نہیں سکتے اور عقلیں ماری گئیں کہ سمجھ کام نہیں دیتی۔ پھر خود ہی ان سارے سوالوں کا جواب دے دیا کہ (فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور) اصل یہ ہے کہ جب کسی پر اندھے پن کا وقت آتا ہے تو آنکھوں کی بصارت نہیں جاتی، دل کی بصیرت جاتی رہتی ہے اور اسی کی بصیرت سے ساری بصارت ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے۔۔۔ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے !