أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
اس آیت کے اسلوب بیان پر غور کرو۔ انسان کو مخلوقات ہستی کی عام صف سے الگ کھڑا نہیں کیا ہے، بلکہ ایک ہی سلسلہ میں سب کا ذکر کیا ہے : (والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وکثیر من الناس) یعنی اس اعتبار سے سب ایک ہی صف میں ہیں۔ انسان کا گوشہ عام سلسلہ قوانین فطرت سے کوئی الگ گوشہ نہیں ہے۔ جس طرح سورج، چاند، ستارے، نباتات، جمادات، احکام فطرت کے آگے سر بسجود ہیں، اسی طرح صحیح الفطرت انسانوں کے بھی سر جھکے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں حقیقت کی راہ عمل صرف یہی ہے؟ یہ مقام مہمات معارف قرآنی میں سے ہے اور صرف اس ایک آیت کی تفسیر میں پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا : (وکثیر حق علیہ العذاب) بہت سے انسان ایسے ہیں جو اس دائرہ اطاعت سے باہر ہوجاتے ہیں، اس لیے ان پر تعزیب کا قانون لازم آجاتا ہے۔ (ومن یھن اللہ فما لہ من مکرم) اور جس کسی پر اللہ کے قانون تذلیل کی مہر لگ گئی تو پھر کوئی نہیں جو اسے سربلند کرسکے۔