إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوس اور وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا یقیناً اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
اس کے بعد آیت (١٧) میں فرمایا کہ دنیا دار العمل ہے اور ہر فرد اور گروہ کو اس کے ایمان و عمل کے مطابق نتیجہ ملنا ہے۔ یہاں حقیقت کا فیصلہ نہیں ہوتا کیونکہ آنکھوں کے آگے پردے پڑے ہیں لیکن قیامت کے دن تمام پردے اٹھ جائیں گے اور سب دیکھ لیں گے کہ اللہ کا فیصلہ حق کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ ان مذہبی گروہوں کا بھی ذکر کیا جو عرب اور عرب کے جوار میں موجود تھے، یہودی، صابی، مسیحی، مجوسی اور مشرک یعنی عرب کے بت پرست۔ آیت (١٨) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک اتبا حق کی حقیقت کیا ہے؟ فرمایا کائنات ہستی میں جس قدر مخلوق ہے سب اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ اجرام سماویہ سے لے کر درختوں اور پتھروں تک کوئی چیز نہیں جس کے لیے اس نے احکام و قوانین نے ٹھہرا دیے ہوں اور ان کے مطابق ان کی ہستی کا کارخانہ نہ چل رہا ہو۔ پھر اگر یہاں درخت کے ایک پتہ اور پہاڑ کی ایک چٹان کے لیے بھی کسی کے ٹھہرائے ہوئے احکام ہیں تو کیا انسان کے لیے نہیں ہوں گے جو کرہ ارضی کے تمام سلسلہ خلقت کا ماحصل اور تمام کارخانہ تخلیق و تکمیل کا آخرین مظہر ہے ؟ اور اگر سب کی ہستی و بقا اس پر موقوف ہوئی کہ احکام حق کے آگے سر بسجود ہیں تو کیا انسان کی ہستی و سعادت کے لیے ایسا ہونا ضروری نہیں؟