يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
وہ اللہ کے سوا اس چیز کو پکارتا ہے جو اسے نقصان نہیں پہنچاتی اور اس چیز کو جو اسے نفع نہیں دیتی، یہی تو دور کی گمراہی ہے۔
آیت (١٢) میں فرمایا، وہ ایسی ہستیوں کو پکارنے لگتے ہیں جن کے نفع سے زیادہ ان کا نقصان اقرب ہے یعنی اگر وہ ذرا بھی سمجھ بوجھ سے کام لیں تو دیکھ لیں ان کے سے نفع پہنچنے کے لیے تو کوئی دلیل موجود نہیں لیکن نقصان میں پڑجانا بالکل واضح اور آشکارا ہے کون سا نقصان؟ ایمان و عقل کا نقصان۔ اگر ایک انسان اپنے ہی جیسی عاجز و محتاج ہستی کو حاجت روائی کے پکارتا ہے تو حاجت پوری ہو یا نہ ہو لیکن اس کے ایمان و عقل کا تو فورا خاتمہ ہو ہی گیا۔ اس نے سچائی اور حقیقت سے منہ موڑا، نجات و سعادت کی راہ اپنے اوپر بند کرلی۔ یہ تو ہوا فوری نقصان باقی رہا نفع، تو اس کے لیے کوئی روشنی موجود نہیں، محض اوہام و ظنون ہیں جو اسے ان چوکھٹوں پر گرا رہے ہیں۔ پس نقصان یقینی اور فوری ہوا، اور نفع محض مظنون و موہوم۔